مسلم لیگ ن کی رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا کہنا ہے کہ اگر ضمانت دی جائے کہ ان کے والد کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا تو وہ آج شام کی فلائٹ سے بھی وطن واپس آ سکتے ہیں۔
مریم نواز نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے بعد کیا، جہاں جسٹس عمر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنسز میں نواز شریف کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں ان کی غیرموجودگی میں سنے جانے یا نہ سنے جانے کے معاملے پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران عدالتی معاون اور قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزاؤں کے خلاف اپیلیں ان کی غیر موجودگی میں نہ سنے جانے کی حمایت کر دی، جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ نے، جو مسلم لیگ ن کے سینیٹر بھی ہیں، نواز شریف کی غیر موجودگی میں ان کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت سے متعلق دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر میرٹ پر کسی کی غیر موجودگی میں مقدمے کا فیصلہ کردیا جائے تو اس شخص کے پاس کوئی رستہ نہیں رہ جاتا۔‘
ان کے مطابق وہ فیصلے کے خلاف اپیل میں جائے گا، اس کے پاس فورم موجود ہے، وہ اپنا موقف وہاں اٹھا سکتا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’عدالت کا قیمتی وقت بچانا بھی ضروری ہے کیونکہ اس ساری مشق کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ ’یہاں نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) محمد صفدر کی اپیل اکٹھی سنی جائے گی اور اگر اس دوران کوئی فائدہ ہوا تو ان کو بھی پہنچ جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقع پر عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ نے ڈھاکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی نظیر عدالت کے سامنے پیش کی۔
جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’ہمارے پاس دو اپیلیں ہیں، ایک میں نواز شریف شریک ملزم ہیں اور دوسرے میں نہیں ہیں۔‘
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کی بریت کے خلاف نیب کی اپیل میں تو ابھی نوٹس بھی نہیں ہوئے ہیں۔
جس پر عدالتی معاون نے کہا کہ ’نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل بھی عدالت کے سامنے ہے‘۔
جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ ’آپ اس وقت کورٹ کے سامنے اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ہیں۔ ہم کورٹ آف لا ہیں اور ہمیں قانون کے مطابق اس معاملے کو دیکھنا ہے۔ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اپیل کنندہ کون ہے۔‘
جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ ’شریک ملزمان کی اپیلوں میں وکلا موجود ہیں جو مقدمے میں دلائل دیں گے۔ ان کو صرف اپنے موکلان کی حد تک دلائل دینے ہیں۔ اگر انہیں سن کر کوئی فائدہ اپیل کنندگان کو ملتا ہوگا تو عدالت وہ دے گی۔ نواز شریف کی دو اپیلیں ہیں، ایک میں شریک ملزمان بھی ہیں۔‘
واضح رہے کہ 2018 کے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو احتساب عدالت کی جانب سے بالترتیب سات اور 10 سال قید اور جرمانوں کی سزائیں ہوئی تھیں، بعد ازاں ان سزاؤں کے خلاف اپیلیں اور سزا کی معطلی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
عدالت نے دونوں سزائیں معطل کرکے انہیں ضمانت پررہا کر دیا تھا۔ سزا معطلی کے بعد اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہوئیں تو نواز شریف عدالت میں ایک بار بھی پیش نہ ہوئے جس پر عدالت نے انہیں اشتہاری قرار دے دیا تھا۔
سماعت کے علاوہ کمرہ عدالت میں مزید کیا ہوا؟
آج عدالت میں معمول سے زیادہ رش، حبس اور گرمی تھی۔ ن لیگی خواتین کی جانب سے چھت والے پنکھوں کے باوجود دستی پنکھوں کا استعمال بھی جاری رہا۔
مریم نواز نے کمرہ عدالت میں صرف 10 منٹ مختصر گفتگو کی۔ غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز شریف نے کہا کہ ’عمران خان کا خواتین کے کپڑوں کو ریپ سے جوڑنا ان کی ذہنیت ہے۔ عمران خان کے بیانیے سے ریپسٹ کو حوصلہ ملے گا۔‘ ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ ’چھوٹے بچوں کے ساتھ جو ریپ کے واقعات ہوئے کیا وہ بھی ان کے کپڑوں کی وجہ سے ہوئے؟‘
گفتگو کے دوران مریم نواز نے عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عثمان کاکڑ کی موت پر اگر سوال اٹھ گئے ہیں تو تحقیقات ہونی چاہییں۔
انہوں نے مزید کہا: ’پی ڈی ایم اجلاسوں میں عثمان کاکڑ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ بہت منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ عثمان کاکڑ کو اگر اس وجہ سے قتل کیا گیا کہ آواز دب جائے تو آواز دبے گی نہیں۔ ایسے اقدامات سے آواز کو دبایا نہیں جاسکتا بلکہ مزید آوازیں اٹھیں گی۔‘
سماعت کے بعد عدالت کے باہر مریم نواز نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ ’اسمبلی کے کسٹوڈین عمران خان نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام ہیں۔ اسمبلی کے تحفظ کے لیے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں جبکہ نواز شریف جلاوطن ہیں۔‘
اپنے والد نواز شریف کی وطن واپس کے بارے میں سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ ’اگر ضمانت دی جائے کہ ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا تو وہ آج شام کی فلائٹ سے بھی آ سکتے ہیں۔‘