پاکستان کی وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 22-2021 کے دوران موبائل فون پر پانچ منٹ سے زیادہ دورانیے کی کال پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس بات کا اعلان وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے جمعے کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ موبائل فون پر پانچ منٹ سے زیادہ دورانیے کی کال پر 75 پیسے ٹیکس عائد کیا جائے گا، تاہم ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ پر کسی قسم کے ٹیکس کی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
یاد رہے کہ 11 جون کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کی بجٹ تقریر کے دوران وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے تین منٹ کی موبائل فون کال، ایس ایم ایس اور انٹر نیٹ ڈیٹا کے استعمال پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز کا ذکر کیا تھا، تاہم اگلے ہی روز پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں انہوں نے اس تجویز کے واپس لینے کا اعلان بھی کر دیا۔
شوکت ترین نے ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر بھی ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ کا اعلان کیا۔
بجٹ تقریر میں انہوں نے 850 سی سی اور اس سے نیچے کی گاڑیوں پر مجموعی طور پر سات فیصد ٹیکس اور ڈیوٹیاں کم کرنے کا ذکر کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ دودھ، دہی جیسی ڈیری مصنوعات پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سونے اور چاندی پر 17 فیصد ٹیکس کم کرکے ایک سے تین فیصد کر دیا گیا ہے، جبکہ سونے کے زیورات بنانے (ویلیو ایڈیشن) پر 17 فیصد ٹیکس برقرار رہے گا، جبکہ آٹے اور اس سے بنی اشیا پر کوئی ٹیکس لگانے کی تجویز نہیں ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کنسٹرکشن پیکج سے ملک میں گروتھ ہوئی جبکہ آئی ٹی سیکٹر کے تمام مطالبات مانے جا رہے ہیں، اور اس شعبے کی برآمدات چھ سے آٹھ ارب ڈالر تک ہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ای کامرس ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے، اور رجسٹرڈ ای کمپنیوں پر صفر ٹیکس ہو گا، جبکہ نان رجسٹرڈ پر دو فیصد ٹیکس لگایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انڈوں پر بھی ٹیکس ختم کر دیا ہے، میڈیکل آلات پر ٹیکس واپس لے لیا ہے، کھاد، زرعی آلات وغیرہ پر ٹیکس کم کیا جا رہا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کی آمدن پر بھی ٹیکس کی تجویز واپس لے لی گئی ہے۔
قومی اسمبلی سے خطاب میں وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ فیڈرل بیوریو آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ہراسگی ملک کے سارے شہریوں کا مسئلہ ہے اور اس رویے کی وجہ سے ٹیکس ادا کرنے والے شہری اپنے ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت نے ٹیکس اکٹھا کرنے اور ٹیکس ریٹرنز ممکن بنانے کے لیے تھرڈ پارٹی کی خدمات حاصل کرنے فیصلہ کیا ہے، جس کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت صرف آڈٹ کرے گی، اور ٹیکس ادا کرنے والوں کے ساتھ گفتگو و شنید کی جائے گی۔ ’کسی کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والے ڈیڑھ کروڑ پاکستانی شہریوں سے متعلق معلومات اکٹھی کر لی گئی ہیں، اور اب ان تمام لوگوں سے تھرڈ پارٹی کے ذریعے رابطہ کیا جائے گا۔ ’ایف بی آر ان لوگوں کے پیچھے نہیں جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے دوران کوئی نیا ٹیکس لگانے نہیں جا رہی۔
وزیر خزانہ کے بقول پاکستان کے شہری نو سو ارب روپے کی بجلی بغیر بل ادا کیے استعمال کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے بجلی ٹیرف میں اضافے سے منع کر دیا ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا سمیت دیگر مشکلات کے باوجود وزیر اعظم نے دلیرانہ فیصلے کیے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سال رواں کے لیے دو فیصد معاشی گروتھ کا ٹارگٹ رکھا تھا جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے بالترتیب 1.3 اور دو فیصد کا ہدف رکھا تھا۔ ’لیکن ہم نے اس سے دگنا زیادہ کر کے دکھا دیا، اور آج پاکستان کی معاشی گروتھ پانچ فیصد پر پہنچ گئی ہے۔‘