جنگ زدہ ملک افغانستان میں تشدد میں اضافے کے باوجود فوجی انخلا کے لیے عجلت کا مظاہرہ کرنے والے صدر جو بائیڈن نے جمعے کے روز وہائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں افغان رہنماؤں سے ’دیرپا‘ شراکت داری کا وعدہ کیا ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی اور قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے وائٹ ہاؤس میں صدر بائیڈن کے ساتھ نشست سے قبل وزیر دفاع لوئڈ آسٹن سے پینٹاگون میں طویل ملاقات کی۔
وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں اگرچہ بائیڈن نے افغانستان کی مدد کے لیے امریکہ کے پرعزم ہونے کا اعادہ کیا لیکن انہوں نے زور دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکی فوج کو واپس گھر بلایا جائے۔
بائیڈن نے افغان رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقات کے آغاز پر مختصر بیان میں کہا ’افغانیوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے اور امریکہ ان کا دیرپا شراکت دار رہے گا۔‘
تاہم بائیڈن نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ ’دیرپا‘ شراکت داری کیا ہوگی۔
افغان رہنماؤں کا دورہ واشنگٹن اس وقت جاری ہے جب بائیڈن انتظامیہ نے مکمل انخلا کے لیے 11 ستمبر کی آخری تاریخ سے قبل ہی اپنی فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کے منصوبے تیز کردیئے ہیں تاکہ 20 سال طویل جنگ کا خاتمہ کیا جاسکے۔
صدر غنی نے جمعے ہی کے روز امریکی ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی اور ریپبلیکن قانون سازوں کے ساتھ بھی ملاقات کی۔ جمعرات کے روز انہوں نے سینیٹ میں اقلیتی رہنما مچ میک کونل سے ملاقات کی تھی۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق 2001 سے اب تک افغان جنگ میں 2،400 سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک اور 20 ہزار زخمی ہوگئے ہیں۔
یہ اندازہ بھی لگایا گیا ہے کہ 3،800 امریکی نجی سکیورٹی کانٹریکٹرز بھی اس جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
افغانستان کا نقصان اس سے بھی زیادہ رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 66 ہزار سے زیادہ افغان فوجی ہلاک اس جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں جب کہ 27 لاکھ سے زیادہ افغان اپنے گھر چھوڑ کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔
امریکی عہدیداروں کے مطابق مکمل انخلا کے بعد تقریبا 650 امریکی فوجیوں کی اپنے سفارتکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے افغانستان میں موجود رہنے کی توقع کی جارہی ہے۔
ممکنہ طور پر ستمبر تک سینکڑوں اضافی امریکی فورسز کابل ائیرپورٹ پر موجود رہیں گی۔ عہدیداروں نے جمعرات کو کہا کہ وہ ترک فوجیوں کی سکیورٹی کی ذمہ داری سونپنے میں مدد کریں۔
امریکی عہدیداروں نے کہا کہ واشنگٹن کو توقع ہے کہ امریکی اور اتحادی کمانڈ کے بیشتر فوجی چار جولائی تک افغانستان سے نکل جائیں گے۔
بائیڈن انتظامیہ 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن سے پہلے ہی ملک میں موجود چار ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکالنے میں عجلت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب طالبان میدان جنگ میں تیزی آگے بڑھ رہے ہیں جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ افغان حکومت اور اس کی فوج چند مہینوں میں ہی گھٹنے ٹیک سکتی ہے۔
دوسری جانب صدر غنی نے اوول آفس میں صدر بائیڈن سے ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ان کی امریکی قیادت کے ساتھ بات چیت نتیجہ خیز رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بہتری کی امید ظاہر کرتے ہوئے اس مشکل کو بھی تسلیم کیا جس کا انہیں جلد سامنا ہو گا۔
انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ امریکی انخلا کے بعد ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس (انخلا) کا رد عمل سامنے آیا ہے، ہم اسے تسلیم کرتے ہیں لیکن ہمیں اب بھی استحکام کی امید ہے۔‘
بائیڈن کے ساتھ ملاقات میں حصہ لینے والے عبداللہ نے بعد میں امریکی تعاون کی مسلسل حمایت کی اہمیت پر زور دیا۔
عبداللہ عبداللہ نے اے پی کو ایک انٹرویو میں بتایا: ’ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ القاعدہ نے افغانستان میں اپنی صلاحیت کو عروج پر پہنچا لیا تھا جو سلامتی کے لیے خطرہ تھا۔ اگر افغانستان کو اب مکمل طور پر تنہا چھوڑ دیا گیا تو خطرہ ہے کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔‘
ادھر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جمعے کو پیرس میں گفتگو کرتے ہوئے افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے اسے ’ایک حقیقی خطرہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر طالبان زبردستی ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں ایک جنگ کی تجدید یا اس سے بھی بدتر صورتحال نظر آئے گی۔‘