غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی غیریقینی کی صورت حال نے افغانستان میں طالبان مخالف گروہوں کو متحرک کر دیا ہے اور نئے مسلح جتھوں میں شامل افراد طالبان کے خلاف مضبوط محاذ تیار کرنے کے لیے پر امید ہیں۔
سینکڑوں سابق افغان مجاہدین اور شمالی کابل کے مکینوں نے طالبان کے خلاف لڑنے والی ملکی سکیورٹی فورسز کے حق میں حال ہی میں مظاہرہ کیا اور طالبان کے مقابلے کے عزم کا اظہار کیا۔
اس مظاہرے میں شامل ایک بندوق بردار ذبیح اللہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم طالبان کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ امن کے ساتھ رہیں۔ اگر وہ امن کے ساتھ نہ رہے تو انہیں ان نوجوانوں کا اور افغان عوام کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم اپنے ملک کو غیرمحفوظ نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اپنی سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
حالیہ دنوں میں افغانستان کے شمال میں طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے ساتھ ہی طالبان ملک کے جنوبی حصے میں واقع اپنے ٹھکانوں سے باہر نکل کر دوسرے علاقوں میں حملے کر رہے ہیں۔
شمالی کابل کے رہائشی کمان دان بریالئی نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم مجاہدین ہیں۔ ہم نے پہلے بھی طالبان کا مقابلہ کیا اور اب بھی تیار ہیں۔ ہم انہیں اپنی سرزمین پر پیش قدمی نہیں کرنے دیں گے۔ہم ان کا خاتمہ کر دیں گے۔‘
شمالی کابل کے ہی رہائشی قندیل قریشی نے کہا: ’ہم آج جمہوریت کی حفاظت، اظہار رائے کی آزادی اور افغانستان کی آزادی کے یہاں جمع ہوئے ہیں۔اگر طالبان امن چاہتے ہیں تو ہم بھی امن سے رہیں گے۔ اگر انہوں نے لڑائی کو فوقیت دی تو ہم بھی اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے تیار ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکام نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں میں تین صوبوں بلخ، قندوز اور فریاب کے دارالحکومتوں کے مضافاتی علاقو ں میں طالبان اور سرکاری فوج کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی ہے۔
شمالی افغانستان میں طالبان نے تاجکستان کی سرحد پر واقع قصبے شیر خان بندر پر قبضہ کر لیا اور ڈرائی پورٹ پر موجود کسٹمز اور سکیورٹی اہلکاروں کو جان بچا کر سرحد پار فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔
امریکہ نے تقریباً 20سال تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد اپریل میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی فوج کو 11 ستمبر تک افغانستان سے غیرمشروط طور پر نکال لے گا۔ اس اعلان کے بعد پورے افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوگیا ہے، جس کی وجہ طالبان کی جانب سے مزید علاقوں پر قبضے کی کوشش ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں تاہم حالیہ دنوں میں کچھ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بات چیت کا عزم کر کھا ہے۔
امریکہ نے یکم مئی سے افغانستان سے فوج کی واپسی کا آغاز کیا تھا۔ واشنگٹن نے کچھ اڈے افغان حکومت کے حوالے کر دیے ہیں جبکہ افغان حکومت لڑائی کے بغیر ہی بعض علاقے طالبان کے حوالے کر چکی ہے۔