واشنگٹن اور تل ابیب میں نئی حکومتوں کے قیام کے بعد امریکی وزیر خارجہ انٹینی بلنکن اور اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپڈ اتوار کو روم میں ملاقات کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان اہم ملاقات کے ایجنڈے میں ویانا میں ایران کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی صلاحیت کو محدود کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے معاہدے کی بحالی پر بات چیت شامل ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے سابق وزیراعظم نتن یاہو کی حمایت کرتے ہوئے 2018 میں امریکہ کو معاہدے سے نکال کر ایران پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔ ان کے جانشین جو بائیڈن نے معاہدے کی بحالی اور توسیع کا عہد کیا ہے۔
اگرچہ کسی نئے جوہری معاہدے کی مخالفت کرنے کے باوجود نئی اسرائیلی حکومت بات چیت کو مکمل طور پر ختم کرنے کی بجائے اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تائید کرتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور بن یامین نتن یاہو کے برعکس صدر جو بائیڈن اور وزیراعظم نفتالی بینیت ڈرامائی اقدامات کi بجائے عملی ڈپلومیسی پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
دونوں ممالک کی نئی قیادت کا مقصد چھوٹی کامیابیوں کو حاصل کرنا ہے، جس میں غزہ میں گذشتہ ماہ غیر رسمی جنگ بندی کا معاہدہ اور اسرائیل کے آئرن ڈوم دفاعی نظام کو بحال کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں، تاہم اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین دیرینہ امن مذاکرات کو بحال کرنے کا دباؤ خطے کے نازک توازن میں بگاڑ پیدا کر سکتا ہے۔
تھنک ٹینک ’سینٹر فار دا نیو امریکن سکیورٹی‘ سے وابستہ اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ایلان گولڈن برگ نے کہا: ’کسی کو بھی نہیں لگتا ہے کہ اس وقت امن عمل جیسے بڑے اقدام کا آغاز ایک اچھا خیال ہے لیکن صورت حال میں بتدریج بہتری لانے کے لیے ایسی کئی چیزیں ہیں جو آپ نظر میں آئے بغیر خاموشی سے کرسکتے ہیں۔‘
امریکی اور اسرائیلی اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے عوامی سطح کی بجائے بند دروازوں کے پیچھے کام کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کی مثال صدر بائیڈن کی ’خاموش سفارتکاری‘ کی پالیسی ہے، جب انہوں نے نتن یاہو پر نجی طور پر زور دیا تھا کہ وہ 21 مئی کو عمل میں لائے گئے معاہدے سے قبل اسرائیل-حماس جنگ کو ختم کردیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاپڈ کی انتخابی مہم میں مشیر کے طور پر کام کرنے والے امریکی ڈیموکریٹک پولسٹر، مارک میل مین نے کہا: ’انہیں معلوم ہے کہ آپ کو ایک اور جنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے پالیسی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔‘
دونوں حکومتیں اسرائیل کے اس نازک حکومتی اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گی تاکہ اس اشتعال انگیزی کو کم کیا جا سکے، جس نے 11 روزہ جنگ کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا جو 254 فلسطینی اور 13 اسرائیلیوں کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔
سنٹرسٹ پارٹی کے رہنما لاپڈ، جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کے ساتھ اسرائیل کے بگڑے ہوئے تعلقات کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی کو کانگریس کے دونوں ایوانوں میں برتری حاصل ہے لیکن مشرق وسطیٰ تنازع پر یہ جماعت تقسیم ہو رہی ہے، جس کے ترقی پسند اراکین نے امریکی صدر سے اسرائیل پر مزید دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ میں اسرائیل کے سابق سفیر مائیکل اورین نے کہا: ’وہ (امریکہ اور اسرائیل) اب باہمی اعتماد بحال کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ میں پالیسی کی بجائے لہجے میں تبدیلی کی توقع کرتا ہوں، لیکن اس بات کا امکان ہے کہ اس سے اسرائیل کے لیے کچھ بہتر صورت حال پیدا ہوسکے۔‘