گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں ایک کالج پروفیسر کو مبینہ طور پر معمولی سی بات پر فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا جس کے بعد پولیس ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
مقتول پروفیسر حبیب کے کزن داور خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 24 جون کی رات نو بجے پروفیسر حبیب اللہ اور ان کے دوست راحت بیگ قراقرم یونیورسٹی کے پاس گاڑی میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں پروفیسر حبیب موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ ان کے ساتھی زخمی ہوگئے۔
داور خان نے بتایا کہ پروفیسر حبیب اللہ نے کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیا تھا اور وہ ڈگری کالج ہنزہ میں 11سال سے فزکس اور ریاضی کے مضامین پڑھا رہے تھا۔
انہوں نے بتایا کہ 'ان کی فیملی کی کسی کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں۔ حبیب کا خاندان تعلیم یافتہ اور سر پر ہاتھ رکھنے والا ہے نہ کہ دشمنی کرنے والا۔'
داور خان نے بتایا کہ 'پروفیسر حبیب کی عمر 31 سال تھی اور حال ہی میں ان کی منگنی ہوئی تھی جبکہ شادی کی تاریخ طے ہونی تھی۔'
انہوں نے الزام عائد کیا کہ 'جس شخص نے انہیں قتل کیا ہے وہ پہلے کراچی میں رہائش پذیر تھا اور ایم کیو ایم سے منسلک تھا۔'
داور نے مزید بتایا کہ 'یہ ہنزہ کی تاریخ کا پہلا افسوسناک واقعہ ہے، کیونکہ یہاں ایسے واقعات بالکل نہیں ہوتے اور لوگ آزادی سے گھومتے ہیں۔'
اس قتل کے تین دن بعد پولیس نے ایک پریس کانفرنس کے دوران مقامی میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے، جس کا نام راحت شاہ ہے۔
اس حوالے سے ایس ایچ او تھانہ علی آباد جاوید عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزم راحت شاہ کو پروفیسر حبیب کے قتل کیس میں گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف دفعہ 302 اور 324 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ 'ملزم کا پہلے بھی مجرمانہ ریکارڈ رہا ہے اور ان کے خلاف کراچی میں بھی چوری اور ڈاکہ زنی کا مقدمہ درج تھا، جس نے معمولی تکرار کے بعد دو افراد پر گولی چلائی۔'
انہوں نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 'حبیب اللہ اور ان کے دوست راحت بیگ نے گاڑی سائیڈ پر پارک کر رکھی تھی، جس پر ملزم نے ان سے پوچھا کہ گاڑی یہاں کیوں پارک کی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں کے رہائشی ہیں، آپ کون ہوتے ہیں ہمیں روکنے والے، جس پر وہ وقتی طور پر وہاں سے چلا گیا اور پھر پستول لوڈ کرکے ان پر فائرنگ کردی۔'
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے پروفیسر حبیب کی موت گولی لگنےکی وجہ سے ہوئی اور انہیں دو گولیاں لگیں۔
ایس ایچ او جاوید عالم کے مطابق ملزم سے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا گیا ہے، جو انہوں نے مویشی خانے میں چھپا رکھا رتھا۔ 'ہم نے دو سول آدمیوں کو بطور گواہ لے کر ملزم کی نشاندہی پر آلہ قتل بھی برآمد کرلیا ہے اور مزید تفتیش کے بعد اس کے اصل محرکات کا بھی پتہ چل جائے گا۔'
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ریجنل کوآرڈینیٹر اسرار الدین اسرار کہتے ہیں کہ 'ہنزہ میں نوجوان پروفیسر حبیب اللہ کا بہیمانہ قتل قابل مذمت ہے۔ تحقیقات کے ذریعے قتل کے اصل محرکات کو بے نقاب کرنے اور ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دلانے کے علاوہ ایسے واقعات کے سد باب کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ انسانی خون بہانے کا قابل نفرت عمل رک سکے۔'