صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے لیکچرار محمد افضل کی جنسی ہراسانی کے الزام پر خودکشی کا معاملہ مزید سنگین ہو گیا ہے۔
بعض اساتذہ کا الزام ہے کہ کالج کے پرنسپل کو افضل کی بے گناہی کی انکوائری رپورٹ مل چکی تھی لیکن وہ اس بارے میں غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔
افضل کی خود کشی کی تحقیقات کرنے والی کالج کی انسداد ہراسانی کمیٹی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹرعالیہ رحمان نے ہائیرایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو خط لکھا کہ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادت یار غلط بیانی کر رہے ہیں کہ وہ افضل پر ایک طالبہ کی جانب سے لگائے گئے ہراسانی کے الزام میں ان کی بےگناہی کی رپورٹ سے لاعلم تھے۔
عالیہ رحمان کا کہنا ہے: ’آٹھ جولائی کو شروع ہونے والی انکوائری رپورٹ 13 جولائی کو ان کے حوالے کر دی تھی، جس کی وصولی بھی موجود ہے۔ اس رپورٹ کی کاپی بھی ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو بھجوا رہی ہوں۔‘
ڈاکٹرعالیہ نے الزام عائد کیا کہ پرنسپل انہیں کالج میں اور میڈیا پر ہراساں کر رہے ہیں، لہٰذا انہیں عہدے سے ہٹایا جائے۔ انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بار بار کوشش کے باوجود پرنسپل ڈاکٹر عبادت یار سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
افضل نے کالج کی ایک طالبہ کی جانب سے لگائے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات سے بری ہونے کے بعد بےگناہی کا خط جاری نہ کیے جانے پر نو اکتوبر کو خودکشی کر لی تھی۔
اس واقعے کے بعد کالج میں دیگر اساتذہ نے انکشاف کیا کہ پرنسپل ڈاکٹر عبادت یار نے ماتحت اساتذہ کو دباؤ میں رکھنے کے لیے ان کے خلاف کئی درخواستیں خود دائر کر رکھی ہیں۔
ڈاکٹر عالیہ کے 21 اکتوبر کو لکھے گئے اس خط پر ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے وائس چانسلر اوکاڑہ یونیورسٹی کی سربراہی میں چار رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے، لیکن ایم اے او کالج کے اساتذہ کے تحفظات برقرار ہیں کہ اتنی تاخیر سے بننے والی کمیٹی ڈاکٹر عبادت یار کے عہدے پر برقرار رہتے ہوئے شفاف تحقیقات کیسے کر سکتی ہے؟
ایم اے او کالج کے دیگر اساتذہ کے خلاف کارروائیاں
انسداد ہراسانی کمیٹی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹرعالیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا افسوس ناک بات ہے کہ نو اکتوبر کو افضل کی جھوٹے الزامات کے باعث خود کشی کے معاملے پر کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ ’ایک استاد کی قیمتی جان ضائع ہونے کے باوجود پرنسپل وہی پرانے ہتھکنڈے استعمال کر کے غلط بیانی کر رہے ہیں اور مجھے بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا معاملہ اتنا عام ہونے کے باوجود کسی کو چھان بین کا خیال تک نہیں آیا۔ میں نے ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو خط لکھا تو انکوائری کمیٹی بنائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ جب انکوائری میں ثابت ہو چکا تھا کہ طالبہ نے محمد افضل پر جھوٹا الزام لگایا تو انہیں بےگناہی کا سرٹیفکیٹ جاری نہ کرنے سے پرنسپل نے کیوں اجتناب کیا؟
اسسٹنٹ پروفیسر ایم اے او کالج طارق کلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل پرنسپل کے کہنے پر شعبہِ انگریزی کی سربراہ ایسوسی ایٹ پروفیسر صادقہ مقبول کے ذریعے اسسٹنٹ پروفیسر شعبہِ فلسفہ اویس محمود سندھو کے خلاف ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو خط لکھوایا گیا کہ وہ پرنسپل کی اجازت کے بغیر کلاس کی طالبات کو مطالعاتی دورے پر لے گئے لہذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ’ہمیں دھمکیاں دی جاتی رہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا 19 فروری کو کالج کے طلبہ نے پرنسپل کے رویے کے خلاف کالج کے سامنے احتجاج کیا تو پرنسپل نے طلبہ سے احتجاج کرانے کا الزام بھی لیکچرار فیصل منظور اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کامران بٹ پر لگا کر ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کا خط لکھ دیا۔
طارق کلیم سے پوچھا گیا کہ اگر اساتذہ اور عملہ پرنسپل سے اتنا نالاں ہے تو ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ اس پر انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر عبارت یار مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق کے بچپن سے دوست ہیں، اور مبینہ طور پر سعد رفیق نے ہی 2012 تک انہیں ایم اے او کالج کا پرنسپل لگایا۔
طارق کے مطابق، اس کے بعد ڈاکٹرعبارت یار گجرانوالہ بورڈ کے چیئرمین بنے، جہاں طلبہ کی پوزیشنز تبدیل کرنے کا الزام ثابت ہونے پر ان کے خلاف کارروائی ہوئی، لیکن جب سعد رفیق کو 2013 میں وزارت ریلوے ملی تو انہوں نے ڈاکٹر عبارت یار کو ریلوے میں ڈی جی ایجوکیشن اینڈ سپورٹس بنا دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریلوے کا عملہ بھی ان سے شدید تنگ تھا، حکومت تبدیل ہوئی تو اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے وہ دوبارہ ایم اے او کالج کے پرنسپل تعینات ہو گئے۔ ان کے خلاف اساتذہ کی شکایات کے باوجود کارروائی سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے نہیں ہوتی۔
پرنسپل کے رویے پر اساتذہ کے استعفے
انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ایم اے او کالج کے متعدد شعبوں کے سربراہان سمیت 20 اساتذہ نے 2012 میں پرنسپل کے رویے سے تنگ آ کر اجتماعی استعفے جمع کراتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں عہدے سے ہٹایا جائے۔ جن اساتذہ نے استعفے دیے تھے ان کے ساتھ کسی نہ کسی صورت اب مبینہ طور پر انتقامی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔
پرنسپل ڈاکٹر عبارت یار سے بار بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے اس معاملے پر موقف دینے سے اجتناب کیا۔ تاہم اتوار کی رات ان سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا ہراسانی کے الزامات میں لیکچرار کی بےگناہی سے متعلق انہیں علم نہیں تھا اور نہ ہی کمیٹی نے ان سے بےگناہی کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی سفارش کی۔ ان کے اس دعوے کو ڈاکٹرعالیہ مسترد کر چکی ہیں۔
ہراسانی کا الزام جھوٹا ثابت ہونے پر خود کشی کرنے والے لیکچرار محمد افضل کا آخری خط ان کی لاش کے قریب سے ملا تھا، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ وہ ’اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔‘