رواں ہفتے عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں پر امریکہ کے فضائی حملوں کے بعد دونوں حریفوں کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
یہ مہلک فضائی حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب واشنگٹن اور تہران میں نئی قیادت جوہری معاہدے کی بحالی کی امید کر رہی تھی تو کیا ایسے موقعے پر دونوں ممالک نئی محاذ آرائی کا خطرہ مول رہے ہیں؟
اس سے قبل گذشتہ سال تین جنوری کو بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی جب امریکہ نے بغداد ہوائی اڈے کے قریب ایران کے اہم ترین کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی شیعہ ملیشیا کے کمانڈر ابو مہدی المہندیس کو اسی طرح کے ایک فضائی حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔
اس حملے کا ایران کی جانب سے عراق میں امریکی فوجی اڈے کو میزائلوں سے نشانہ بنا کر فوری جواب دیا گیا۔
اس دوران بغداد میں امریکی سفارت خانے کے قریب بھی کئی میزائل گرے، تاہم ایران یا اس کی حمایت یافتہ عراقی شیعہ ملیشیاز نے کبھی ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
خطے میں امریکہ، ایران اور ان کے اتحادیوں کے حوالے سے ہونے والے کئی خطرناک واقعات کے باوجود دونوں فریقین نے دوبدو اور مکمل جنگ سے گریز کیا۔
ابھی حال ہی میں ایران کے عراق سے لے کر یمن تک تمام اتحادیوں نے ایرانی ساختہ مسلح ڈرونز کو استعمال کیا ہے، جو زیادہ درست، زیادہ نقصان پہنچانے اور امریکی اینٹی راکٹ سسٹم کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے جانشین جو بائیڈن نے جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے ویانا میں تہران کے ساتھ بالواسطہ بات چیت کا آغاز کیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے پیر کو فضائی حملے کا بھی حکم دیا جس میں اطلاعات کے مطابق نو ایرانی حمایت یافتہ جنگجو ہلاک ہوگئے۔
عراقی مسلح گروہوں پر نظر رکھنے والے ماہر حمدی مالک نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بائیڈن انتظامیہ عراق میں امریکی افواج کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیوں خاص طور پر جدید ایرانی ساختہ ڈرونز کے ذریعے کیے جانے والے حملوں کی روک تھام کے لیے پالیسی میں تبدیلی کی کوشش کر رہی ہے، جس میں فوجی ہلاکتوں اور کشیدگی میں اضافے سمیت نئی ریڈ لائنز شامل ہیں۔‘
واشنگٹن کی اس سخت پالیسی کے جواب میں ایرانی حمایت یافتہ قائدین کی طرف سے بھی سخت بیان بازی کی ہے۔
حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والی شیعہ تنظیم ’الحشد الشعبی‘ کے رہنما قیص الخزالی نے منگل کو خبردار کیا تھا کہ ان کے گروپ کی کاروائیاں ’ایک نئے مرحلے‘ میں داخل ہو گئی ہیں اور ’ہم نے قابض فوجیوں کے خون سے اپنے نوجوانوں کے قیمتی خون کا بدلہ لینے کا وعدہ کیا ہے۔‘
عراقی حکومت نے ملکی خود مختاری کی خلاف ورزی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے لیکن ’الحشد الشعبی‘ کے اندر بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیانیہ قابض فورسز کے خلاف براہ راست حملوں کا متبادل نہیں ہے۔
طویل عرصے سے عراق میں واشنگٹن کے بہترین حلیف کہلانے والے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی ’الحشد الشعبی‘ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگئے ہیں اس کے علاوہ اکتوبر میں ہونے والے انتخابات قریب آنے کے بعد وہ ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔
مصطفیٰ الکاظمی جلد واشنگٹن کا دورہ کرنے والے ہیں لیکن ایران کے نئے صدر ابراہیم رئیسی نے بھی انہیں اپنی صدارت سنبھالنے کے بعد تہران کے دورے کی دعوت دی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکہ، ایران اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے سخت بیان بازی اور طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی فریق براہ راست تصادم کا خطرہ مول نہیں لے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک مغربی سفارت کار نے اے ایف پی کو بتایا کہ واشنگٹن نے اس سال کے اوائل میں ایک ڈرون حملے میں عراق میں دو امریکی کنٹریکٹرز کی ہلاکت کا جواب دینے میں تحمل کا مظاہرہ کیا تھا لیکن بائیڈن انتظامیہ اب کشیدگی میں اضافے کا انتخاب کر سکتی ہے۔
عراقی تجزیہ کار احسان الشماری نے کہا کہ امریکہ ویانا میں ایران سے جوہری مذاکرات میں مصروف ہونے کے باوجود بھی عراق میں اس کے حامی دھڑوں سے مختلف انداز سے نمٹنے کی کوشش کرے گا۔
جیسا کہ حمدی مالک نے کہا کہ ’ایران عراقی ملیشیاز کو عراق میں امریکی افواج کے خلاف معمولی حملوں کا سلسلہ جاری رکھنے کی ہدایت دیتا ہے لیکن وہ اس مرحلے پر کوئی بڑی جنگ نہیں چاہتا۔‘
افغانستان اور عراق سے اپنی فوجیں نکالنے والا امریکہ بھی بظاہر ایسا ہی چاہتا ہے۔