پاکستان میں آج نئے مالی سال کا پہلا دن ہے۔ گھڑی میں پانچ بج کر 46 منٹ کا وقت ہے۔ خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا ٹوئٹر اکاؤنٹ پر محکمہ خزانہ کے کچھ نوٹیفیکیشن شئیر کرتے ہیں جس پر بجٹ کے حوالے سے اعداد و شمار درج ہیں۔
نوٹیفکیشن میں لکھا ہے کہ صوبائی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے تمام مختص فنڈز متعلقہ محکموں کو ریلیز کر دیے گئے ہیں۔
تیمور سلیم جھگڑا نے ٹوئٹر پر نوٹیفیکشن کے ساتھ لکھا: ’بہت لوگ یقین نہیں کریں گے کہ ہم یہ کریں گے۔ ہم نے نئے مالی سال کے لیے تمام صوبے کے ترقیاتی بجٹ کے لیے مختص فنڈ مالی سال کے پہلے دن ہی ریلیز کر دیے۔‘
احمد شیخ نامی صارف نے ٹوئٹر پر ان سے پوچھا کہ یہ صبح سویرے پانچ بج کر 46 منٹ پر تو دفاتر بھی بند ہوتے ہیں تو یہ کیسے ہو گیا؟ جس کے جواب میں تیمور سلیم جھگڑا نے لکھا: ’یہ ٹویٹ شاید سب سے زیادہ تعریف والی ہے۔ محکمہ فنانس جو اس حوالے سے مشہور ہے کہ یہ محکموں کے مختص فنڈز ریلیز نہیں کرتے لیکن اب یہی محکمہ اوور ٹائم میں کام کرتا ہے اور مختص فنڈز کو صبح سویرے ہی ریلیز کر دیا۔‘
صوبائی حکومت نے نئے مالی سال کے لیے جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے تقریباً 160 ارب روپے سے زائد کا ترقیاتی بجٹ ریلیز کر دیا ہے۔
ریلیز کیے گئے بجٹ میں 120 ارب روپے صوبائی ترقیاتی پروگرام کے شامل ہے جبکہ 46 ارب روپے ضم شدہ اضلاع میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے لیے ریلیز کیے گئے ہیں۔
صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماضی میں محکموں کی طرف سے یہی شکایت دیکھنے کو ملی ہے کہ محکمہ خزانہ کی جانب سے ان کو فنڈز ریلیز نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں لیکن اب یہ شکایت نہیں ہوگی۔
’ابھی ہم نے جاری منصوبوں کے لیے فنڈز ریلیز کیے ہیں اور بجٹ میں نئی سکیموں کے لیے جو مختص رقم ہے، وہ بھی سکیمز کی منظوری کے بعد ان کو ریلیز کر دی جائے گی، تاکہ سال کے آخر تک کسی بھی منصوبے کے لیے مختص رقم متعلقہ محکمے کو وقت پر ملے اور منصوبوں کی بروقت تکمیل ممکن ہو سکے۔‘
ماضی میں عموماً ایسا ہوتا تھا کہ محکموں کو زیادہ تر فنڈز سال کے آخری مہینے جون میں ملتے تھے جس کی وجہ سے منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے تھے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹر ناصر اقبال کہتے ہیں کہ گذشتہ تین سالوں کا ریکارڈ اگر چیک کیا جائے تو بہت سے منصوبے فنڈز کے جاری نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے رواں مالی سال کے لیے فیصلہ کیا تھا کہ فنڈز جاری کرنے میں تاخیر کا مسئلہ حل کیا جائے گا اور یوں انہوں نے یہ فنڈز سال کے پہلے دن ہی ریلیز کر دیے۔
فنڈز کے وقت پر اجرا سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اس کے جواب میں ڈاکٹر ناصر کا کہنا تھا کہ ’فائدہ یہی ہوگا کہ متعلقہ محکمے کو فنڈز وقت پر ملیں گے اور وہ منصوبوں کی وقت پر تکمیل ممکن بنائیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں یہی پریکٹس دیکھنے کو ملی کہ زیادہ تر منصوبوں کے لیے فنڈز سال کے آخر ی مہینے جون میں جاری کیے جاتے تھے جس کی وجہ سے ادارے فنڈز لیپس ہونے کے ڈر سے فنڈز کسی نہ کسی شکل میں ادھر ادھر لگا دیتے تھے اور جس سے منصوبوں کی افادیت متاثر ہوتی تھی۔
’اس فیصلے کے پیچھے یہ بات بھی کارفرما ہے کہ موجودہ حکومت 2023 میں ختم ہوجائے گی تو پی ٹی آئی کوشش کرے گی کہ نئے مالی سال میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ممکن بنا سکے تاکہ ان کو سیاسی فائدہ مستقبل میں مل سکے۔‘
تیمور سلیم جھگڑا کے مطابق صوبائی حکومت کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر ایک منصوبے کے لیے فنڈز مختص ہیں تو اس کو وقت پر کیوں ریلیز نہ کیے جائیں۔ ’بجائے اس کے کہ سال کے آخری مہینے تک انتطار کیا جائے اور جب اس وقت ریلیز کیا جائے تو محکمے کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ایک مہینے میں سارے فنڈز خرچ کر سکے۔‘
خیبر پختونخوا حکومت نے سال 2021-22 کے بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے مجموعی طور پر 371 ارب روپے مختص کیے ہیں جس میں 270 ارب روپے سے زائد صوبے کے بندوبستی اضلاع جبکہ 100 ارب روپے سے زائد ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص ہیں۔
ضم شدہ اضلاع کے لیے مختص بجٹ میں وفاق کی جانب سے ملنے والی 30 ارب روپے بھی شامل ہے جو ضم شدہ اضلاع کے دس سالہ خصوصی ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص ہے جس میں چھ ارب روپے صوبائی حکومت کی طرف سے مختص ہیں اور کل ملا کر یہ بجٹ تقریباً 36 ارب روپے ہے۔
عزیز بونیری گذشتہ دس سالوں سے صوبائی اسمبلی میں بجٹ کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں فنڈز کے ریلیز ہونے سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ منصوبوں کی تکمیل وقت پر ہوگی اور منصوبوں پر خرچ ہونے والے فنڈز میں اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ جتنا منصوبے کو فنڈز جاری ہونے میں تاخیر ہوگی، اتنا ہی اس کی لاگت بڑھے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پچھلے برسوں میں جب سے ’میں بجٹ کور کرتا رہا ہوں، ایسا نہیں ہوا کہ نئے مالی سال کے پہلے دن ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کیے گئے ہوں اور عموماً فنڈز ریلیز ہونا پہلے کوارٹر کے آخری دنوں میں شروع ہو جاتا ہے تاہم اب اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ان فنڈز کی پنچنگ کر سکے ( یعنی ریلیز کے نوٹیفیکیشن کے بعد محکموں کو اس فنڈز کے استعمال کا اپنا ایک طریقہ کار ہے)۔
عزیز نے مزید بتایا کہ ’اس سے پہلے محکموں کی جانب سے فنڈز بھی اسی وجہ سے لیپس ہوجاتے تھے کہ انہیں سال کے آخری مہینوں میں فنڈز ریلیز کیے جاتے تھے اور اس وقت فنڈز کو استعمال کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ ماضی میں حکومت زیادہ تر 25 فیصد فنڈز ریلیز کرنے یا 50 فیصد فنڈز ریلیز کرنے کی پالیسی بنا دیتے تھے یوں پہلے کوارٹر میں 25 فیصد پھر اگلے کوارٹر میں 50 فیصد اور پھر اس کے بعد 24 فیصد لیکن اس دفعہ حکومت نے 100 فیصد فنڈز ریلیز کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔‘