وفاقی اور خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ساتھ کیے گئے وعدے کے مطابق 100 ارب روپے کا سالانہ ترقیاتی پیکج بجٹ میں مختص کرنے میں ناکام رہی جبکہ خیبر پختونخوا حکومت کا موقف ہے کہ اس کی وجہ باقی صوبوں سے قبائلی اضلاع کے لیے ترقیاتی فنڈ نہ ملنا ہے۔
وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت نے قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے بعد 2019 میں ’ٹرائبل ڈیکیڈ سٹریٹجی 30-2020‘ کے نام سے 10 سالہ ترقیاتی منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت قبائلی اضلاع کو بندوبستی اضلاع کے برابر کرنے کے لیے 10 سالوں میں ایک ہزار ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔
اس پروگرام کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومت سالانہ اپنے بجٹ میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے 100 ارب روپے قبائلی اضلاع کے لیے مختص کرے گی۔ یاد رہے کہ اس منصوبے کے لیے مختص رقم بجٹ میں عمومی طور پر ’سالانہ ترقیاتی پروگرام‘ سے الگ ہوتی ہے اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری خیبر پختونخوا حکومت کی ہے۔
تاہم مالی سال 22-2021 کے وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومت کے بجٹ کو دیکھا جائے تو اس منصوبے کے لیے درکار فنڈ مختص نہیں کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے اس خصوصی منصوبے کے لیے مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں 30 ارب روپے جبکہ خیبر پختونخوا حکومت نے اس منصوبے کے لیے چھ ارب روپے مختص کیے ہیں، جو کل ملا کر 36 ارب روپے بنتے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ’ایکسیلریٹڈ امپلیمینٹیشن پروگرام‘ کے نام سے 10 سالوں میں پہلے تین سال کے لیے پلان بنایا ہے، جس کا آغاز 2019 میں ہوا۔
صوبائی پلاننگ اینڈ ڈوپلمنٹ کی دستایزات کے مطابق اس منصوبے کے لیے پہلے سال میں صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع میں 24 ارب روپے کے 127 ترقیاتی منصوبے مکمل کیے ہیں۔
تاہم ان ہی دستاویزات کے مطابق 20-2019 میں وفاقی حکومت کی طرف سے اس منصوبے کے لیے مختص 48 ارب روپے کے بجٹ میں صرف 23 ارب روپے مل سکے جبکہ صوبائی حکومت کی طرف سے 11 ارب روپے کے مختص فنڈ میں سے صرف ایک ارب مل سکے۔ دستاویزات میں اس کی وجہ کرونا وبا کی وجہ سے معاشی حالات خراب ہونا بتایا گیا ہے۔
اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
وفاقی حکومت کے بجٹ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں قبائلی اضلاع کی ترقی کے لیے 56 ارب روپے مختص کیے گئے، تاہم بجٹ تقریر میں اس بات کا احاطہ نہیں کیا گیا کہ یہ 56 ارب روپے کس مد میں مختص ہیں۔
دوسری جانب وفاقی بجٹ دستاویزات میں یہ واضح ہے کہ ان 56 میں سے 24 ارب روپے قبائلی اضلاع کے ’سالانہ ترقیاتی پروگرام‘ کے لیے مختص ہیں جو دہائیوں سے چلا آرہا ہے جبکہ دس سالہ خصوصی ترقیاتی پلان کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کی بجٹ دستاویزات میں اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس میں قبائلی اضلاع کے ترقیاتی پروگرام کے لیے 100 ارب روپے سے زائد مختص نظر آئیں گے، تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ 100 ارب روپے قبائلی اضلاع کے دس سالہ خصوصی ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص نہیں ہیں بلکہ اس میں ’سالانہ ترقیاتی پروگرام‘ کے لیے مختص فنڈ کو بھی جمع کیا گیا ہے۔
بجٹ دستایزات کی تفصیل میں اگر جائیں تو وہاں پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ صوبائی حکومت نے دس سالہ خصوصی پروگرام کی مد میں صرف چھ ارب روپے مختص کیے ہے جبکہ 30 ارب روپے وفاق کی جانب سے ملیں گے جو کل ملا کر 36 ارب روپے بنتے ہیں۔
صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے وائٹ پیپر میں درج ہے کہ قبائلی اضلاع کے ضم ہونے کے بعد تمام صوبوں نے وعدہ کیا تھا کہ ان علاقوں کی ترقی کے لیے نیشنل فنانس کمیشن میں آنے والے فنڈ کا تین فیصد حصہ قبائلی اضلاع کی ترقی میں استعمال ہوگا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
وائٹ پیپر میں اس منصوبے کے لیے گذشتہ سالوں میں مختص فنڈ کے اعداد و شمار بھی دیے گئے ہیں۔ ان اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جب سے یہ خصوصی ترقیاتی پروگرام شروع ہوا ہے، کسی سال بھی اس پروگرام کے لیے 100 ارب روپے مختص نہیں کیے گئے۔ مالی سال 20-2019 میں اس پروگرام کے لیے 24 ارب، 2021 میں بھی 24 ارب جبکہ آئندہ مالی سال کے لیے اس منصوبے کے لیے 36 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
خصوصی ترقیاتی منصوبے کے لیے 100 ارب روپے کیوں مختص نہ ہو سکے؟
یہ سوال جب ہم نے صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کے سامنے رکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’خیبر پختونخوا حکومت کی بجائے یہ سوال باقی صوبوں سے کرنا چاہیے کہ وہ قبائلی اضلاع کی ترقی کے لیے نیشنل فنانس کمیشن کا تین فیصد کیوں قبائلی اضلاع کو نہیں دے رہے۔‘
تیمور جھگڑا نے بتایا کہ ’اگر ہم قبائلی اضلاع کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص فنڈ کو اس خصوصی ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص رقم کے ساتھ جمع کریں تو یہ مجموعی طور پر 100 ارب بنتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا: ’اس میں 30 ارب روپے وفاق سے خصوصی ترقیاتی پروگرام کی مد میں ملیں گے جبکہ باقی وفاقی اور صوبائی حکومت کی قبائلی اضلاع کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے مختص رقم ہے جو کل ملا کر تقریباً 70 ارب روپے بنتے ہیں۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ان 70 ارب روپے کو 100 ارب روپے کرنے لیے بجٹ میں 35 ارب روپے لکھ کر ’اَن فنڈڈ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ تیمور سلیم جھگڑا کے مطابق: ’اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ رقم ہے جو قبائلی اضلاع کے خصوصی ترقیاتی منصوبے کے لیے باقی صوبوں نے دینی ہے لیکن وہ دے نہیں رہے ہیں۔‘
جھگڑا نے کہا: ’باقی صوبوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ ضم شدہ قبائلی اضلاع، جو وفاق کے زیر انتظام چل رہے تھے، کی ترقی کے لیے ان کا حصہ نہیں دے رہے۔ وفاق کے زیر انتظام ہونے کا مطلب یہی ہے کہ وفاقی حکومت تمام صوبوں کی مدد سے اس کی ترقی کے لیے کام کرے گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب اور بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شہوانی سے سوال کیا کہباقی صوبے ضم شدہ اضلاع کے لیے نیشنل فنانس کمیشن میں مختص فنڈ کا حصہ کیوں نہیں دے رہے؟ لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، تاہم جب سے ضم شدہ اضلاع کے اس منصوبے کی بات شروع ہوئی ہے، تب سے یہ مسئلہ چلا آرہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر عاجز دھامرا نے گذشتہ سال پشاور کے دورے کے موقع پر اس حوالے سے گفتگو میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی اپنی نا اہلی چھپانے کے لیے سندھ حکومت کو مورد الزام ٹہرا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ سندھ حکومت ضم شدہ اضلاع کے لیے فنڈز دینے کے لیے تیار ہے تاہم اس مقصد کے لیے حکومت کو پہلے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ’پہلے آئین کے آرٹیکل 160 کی ذیلی شق تھری اے میں ترمیم کرنی پڑے گی کیونکہ اس ترمیم کے بغیر نیشنل فنانس کمیشن میں حکومت تین فیصد تو کیا تین روپے کی کٹوتی بھی نہیں کر سکتی۔‘