لاہور: 266 مرتبہ سگنل توڑنے والا ڈرائیور آخر پکڑا گیا

ایک لاکھ 27 ہزار چار سو روپے جرمانہ ادا کرنے والے محمد پرویز نے بتایا: ’رات دو بجے سگنل پر اکثر  صرف میری ہی گاڑی کھڑی ہوتی ہے تو میں کہتا ہوں کہ بس ٹھیک ہے نکل جانا چاہیے اور پھر ایک ہی سڑک پر تین تین اشارے کٹ جاتے ہیں۔‘

سی ٹی او لاہور منتظر مہدی کے مطابق سٹی ٹریفک پولیس کی 17 ٹیمیں ای چالان نادہندہ گاڑیوں کے خلاف کارروائی بھی کررہی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دو برس کے عرصے میں 266 مرتبہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے لاہور کے شہری بالآخر صدر گول چکر پر پکڑ لیے گئے، جنہوں نے ایک لاکھ 27 ہزار چار سو روپے جرمانہ ادا کر اپنی گاڑی کو چھڑوایا۔

لاہور کینٹ کے رہائشی  محمد پرویز گاڑیوں کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے ’عادی‘ ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’چالان اکٹھے ہوتے رہتے ہیں، پھر ایک ہی مرتبہ جمع کروا دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں کینٹ میں رہتا ہوں اور وہاں کا ہر اشارہ (سگنل) تقریباً دو منٹ کا ہے۔ رات کے دو بجے سگنل پر اکثر  صرف میری ہی گاڑی کھڑی ہوتی ہے تو میں کہتا ہوں کہ بس ٹھیک ہے نکل جانا چاہیے اور پھر ایک ہی سڑک پر تین تین اشارے کٹ جاتے ہیں۔ بس اسی وجہ سے خلاف ورزی ہو جاتی ہے۔‘

پرویز نے بتایا کہ بدھ (30 جون) کو وہ صدر گول چکر پر کھڑے تھے جب ٹریفک پولیس نے انہیں روک لیا اور ان کی گاڑی موقع پر بند کر دی۔ گاڑی چھڑوانے کے لیے انہوں نے اسی وقت اپنے فون کے ذریعے چالان کی رقم سرکارکے کھاتے میں جمع کروائی اور گاڑی کی چابی اور کاغذات واپس حاصل کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر اب ٹریفک پولیس کے لائیو کیمرے لگے ہیں اور جیسے ہی ہم خلاف ورزی کرتے ہیں تو ٹریک ہو جاتے ہیں۔ ’مجھے بھی ایس ایم ایس آتے تھے کہ میرے اتنے چالان ہو گئے ہیں، بس وہ اکٹھے ہوتے رہے۔ سوچا تھا کہ بھر دوں گا مگر پھر ذہن سے نکل جاتا تھا، لیکن جب اس دن پولیس والوں نے گاڑی روکی تو پھر وہیں سارا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔‘

پرویز نے بتایا: ’اب میں نے ذہن بنا لیا ہے کہ انسان تھوڑا انتظار کر لے لیکن خلاف ورزی نہ کرے۔ اب کوشش یہی ہے بلکہ ڈرائیور کو بھی سمجھایا ہےکہ آئندہ ایسا کام نہیں کرنا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جتنی بار بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہوئی گاڑی وہی چلا رہے تھے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ اس چیز میں حادثے کا بھی خطرہ ہوتا ہے، اس لیے مستقبل میں احتیاط کروں گا۔‘

اس حوالے سے لاہور ٹریفک پولیس کے ترجمان عارف رانا نے بتایا کہ محمد پرویز نے ای چالاننگ میں ڈبل سینچری کی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’بعض لوگوں کے پاس پیسہ بہت ہے اسی لیے وہ اتنے چالان اکٹھے بھی جمع کروا سکتے ہیں۔‘

عارف رانا کے مطابق: ’محمد پرویز نے 100 چالان کچھ عرصہ پہلے جمع کروائے تھے جبکہ 166 بدھ کو۔ انہوں نے  180 مرتبہ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کی۔ 58 مرتبہ اوور سپیڈنگ اور 25 مرتبہ لین لائن کی خلاف ورزی کی جس کے بعد ان پر ایک لاکھ 27 ہزار 400 روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔‘

سی ٹی او لاہور منتظر مہدی کے مطابق سٹی ٹریفک پولیس کی 17 ٹیمیں ای چالان نادہندہ گاڑیوں کے خلاف کارروائی بھی کررہی ہیں۔ ٹریفک وارڈنز کو ڈیوائسز اور پرنٹر بھی فراہم کیے گئے ہیں تاکہ وہ ڈیوائسز کی مدد سے باآسانی ای چالان نادہندہ گاڑیوں کا پتہ لگا سکیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ای چالان نادہندہ گاڑیوں کےخلاف ٹریفک پولیس اور سیف سٹی کی مشترکہ کارروائیاں جاری ہیں۔

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کا پتہ کیسے چلتا ہے؟

سیف سٹی اتھارٹی کے سی او او کامران خان نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سڑکوں پر ہم نے ایسے سینسرز اور کیمرے لگائے ہیں جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی گاڑی کی تصویر فوری کھینچ لیتے ہیں۔ یہ کیمرے اور سینسرز اس طرح کام کرتے ہیں کہ اشارہ سرخ ہونے پر اگر کوئی گاڑی زیبرا کراسنگ کو کراس کرتی ہے، لین کی خلاف ورزی کرتی ہے، سرخ بتی پر یو ٹرن لیتی ہے تو کیمرہ اس کی تصویر کھینچ لیتا ہے اور ہمارے ڈیٹا بیس میں وہ تصاویر آجاتی ہیں۔ یہاں ہمارے مانیٹرنگ روم میں جو ٹیمیں بیٹھی ہیں وہ ان تصاویر کو دیکھتی رہتی ہیں اور جن گاڑیوں کی نمبر پلیٹ صحیح مل جائے، کسی گاڑی کی وجہ سے چھپ نہ رہی ہو تو اس کا ریکارڈ نکلوا کر اس کے پتے پر چالان کی ہارڈ کاپی ارسال کر دی جاتی ہے اور ساتھ ہی انہیں ایس ایم ایس بھی چلا جاتا ہے۔‘

لوگ ای چالان جمع کیوں نہیں کرواتے؟    

کامران خان نے بتایا: ’ای چالان میں مسئلہ یہ ہو رہا ہے کہ لوگوں تک چالان پہنچتے ہیں اور اکٹھے ہوتے جاتے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں جیسے جو گاڑی خریدتے ہیں وہ رجسٹریشن کے وقت پتہ نامکمل لکھواتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے گاڑی مالک کرائے پر رہتے تھے اور وہاں سے کہیں اور چلے گئے ہیں یا گاڑی اوپن لیٹر پر خریدی اور جو اصل خریدار تھا گاڑی اس کے نام پر چل رہی ہے اور چلانے والا کوئی اور ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’بعض کیسز میں، جیسے پرویز کا کیس ہے، اس میں گاڑی مالک کو چالان موصول ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کون پکڑے گا یا ای چالان کو سنیجیدگی سے نہیں لیتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اتنا عرصہ گزر گیا کسی نے پکڑا نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’دراصل ہمارا ایک سسٹم ہے جس کے تحت ہم گاڑیوں کو روکتے ہیں۔ ہم جب چالان ایشو کرتے ہیں تو ہم اسے اس پتے پر بھیجتے ہیں جو ہمارے ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں ہوتا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ گاڑی بک چکی ہے یا کوئی اور چلا رہا ہے۔ چالان اسی دیے گئے پتے پر بھیجتے رہتے ہیں اور جس نے گاڑی فروخت کر دی ہے، وہ آگے اس کے نئے مالک تک چالان نہیں پہنچاتا کیونکہ اسے بھی شاید یہ معلوم نہیں ہوتا کہ گاڑی آگے کتنے ہاتھوں میں فروخت ہوچکی ہے، تو وہ یا تو چالان لیتا نہیں اور اگر لے بھی لے تو آگے تک نہیں پہنچاتا۔ اسی طرح جب چالان اکٹھے ہوتے رہتے ہیں تو پھر ہماری ایکسائز اور ٹریفک پولیس کی ٹیمیں اس گاڑی کو ٹریس کرتی ہیں۔‘

بقول کامران خان: ’ہم اس طرح سڑکوں پر گاڑیاں نہیں روک لیتے بلکہ اگر نادہندہ کی گاڑی کہیں پارکنگ میں یا  کسی اشارے پر کھڑی نظر آجائے تو ہم اس کی اطلاع قریبی ٹریفک ٹیم کو دے کر اسے رکوا لیتے ہیں اور کاغذات قبضے میں لے لیتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ چالان جمع کروائیں اور کاغذات واپس لے جائیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ گاڑی بہت زیادہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہوتی ہے لیکن وہ قابو نہیں آرہی ہوتی۔ ان گاڑیوں کو ٹریس کرنے کے لیے بھی ہمارا ایک مانیٹرنگ روم ہے۔ لاہور میں ہمارے پاس آٹھ ہزار کیمرے لگے ہوئے ہیں جس سے ہم لاہور کی مختلف سڑکوں، پارکنگ ایریاز وغیرہ کو مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں۔‘

’مسئلہ یہ ہے کہ کیمرے آٹھ ہزار ہیں اور اسے مانیٹر کرنے کے لیے 40 سے 50 لوگ ہیں، اس لیے وہ ہر لمحہ ہر سڑک کو نہیں دیکھ سکتے۔ وہ گاہے بگاہے مختلف سڑکوں کی ٹریفک کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ وہ گاڑیوں کو زوم اِن کرکے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ نمبر پلیٹ جعلی تو نہیں ہے یا یہ گاڑی ای چالان ڈیفالٹر تو نہیں۔‘

کامران خان نے بتایا کہ لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ چونکہ انہیں چالان نہیں پہنچا تو انہیں کیسے معلوم ہو کہ انہوں نے ٹریفک کی کوئی خلاف ورزی کی ہے۔ ’ایسی صورتحال کے لیے ہم نے حال ہی میں 8815 شارٹ کوڈ متعارف کروایا ہے۔ آپ اپنے موبائل سے اس نمبر پر اپنی گاڑی کا چیسسز نمبر بھیجیں اور اپنے پینڈنگ چالانز کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اس کے علاوہ ہم ایس ایم ایس بھی بھیجتے ہیں بشرطیکہ کہ ہمارے پاس اس گاڑی مالک کے پتے کے ساتھ اس کا موبائل نمبر بھی ریکارڈ میں ہو۔‘

ان کا  مزید کہنا تھا کہ ’ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تقریباً 50 فیصد لوگوں کے فون نمبر ہی ریکارڈ میں درست نہیں ہیں اور جن 50 فیصد کے ہیں، ان میں سے بیشتر نے گاڑیاں آگے فروخت کردی ہیں اور جن کا ریکارڈ بالکل درست ہے ان تک فوری میسج پہنچ جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان