پشاور کی سڑکوں پر رواں دواں رنگ برنگی فورڈ ویگن کو پشاور میں کون نہیں جانتا۔ اکثر لوگ اسے ’ٹورس‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں، جو پشاور میں واقع ٹرانسپورٹ اڈے ’حاجی کیمپ‘ سے شہر کے آخری سرے یعنی کارخانو مارکیٹ تک جاتی تھیں۔
کنڈیکٹر مخصوص انداز میں فردوس، ہشتنگری، تہکال، بورڈ بازار اور کارخانو سٹاپ کی آواز لگاتے تو کئی سواریاں اترتی اور چڑھتی جاتیں، تاہم یہ دور تمام ہوا کیونکہ اب ان کی جگہ خاموش، آرام دہ اور جدید سہولیات سے آراستہ بی آر ٹی بسوں نے لے لی ہے، جو کم وقت اور کرائے میں مسافروں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچانے کا کام انجام دے رہی ہیں۔
پھر بھی پرانے وقتوں کی یادوں سے انسیت ایک فطری بات ہے۔ پاکستان میں فورڈ ویگن گاڑیاں 70 کی دہائی میں آئیں اور تب سے اب تک یہ ویگنیں پشاور میں چلتی آرہی ہیں۔
فورڈ ویگنوں میں کئی گاڑیاں اب بھی اپنی اصل حالت اور رنگ میں موجود ہیں، جن میں سے ایک ویگن کو یادگار کے طور پر محکمہ آثار قدیمہ نے محفوظ کر لیا ہے۔
فورڈ ویگن کے ایک پرانے ڈرائیور مختیار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ 2001 سے 2013 تک فورڈ ویگن چلاتے رہے، جس کے بعد انہوں نے اپنی ایک ویگن خریدی اور پھر مزید کچھ سال فورڈ ویگن کی ڈرائیونگ بھی کرتے رہے۔
انہوں نے بتایا: ’پھر میں نے مزید 11 فورڈ ویگنیں خریدیں، لیکن جب بی آر ٹی آیا تو ہمیں اس وقت مایوسی ہوئی، جب لوگوں نے ان ویگنوں اور پرانی بسوں میں جانا چھوڑ دیا۔‘
مختیار احمد نے بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ان ویگنوں کو دیا، یہی وجہ ہے کہ بہت سی یادیں ان کے ساتھ جڑی ہیں۔
’بہت جلد وہ وقت آئے گا جب بچے جوان ہوں گے اور ہم ان کو بتائیں گے کہ کبھی پشاور ایسا تھا اور ایسی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں اور ہمیں ان کو چلانے کا شرف حاصل رہا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ گریجویشن کرچکے ہیں اور مطمئن ہیں کہ حکومت سے ملنے والے معاوضے سے ایس یو وی گاڑی خرید کر اسے کرائے پر چلاکر اپنا روزگار جاری رکھیں گے۔
ترجمان ٹرانس پشاور عمیر خان سے جب اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ویگنوں اور بسوں کو پشاور کی سڑکوں سے ختم کرنا بی آر ٹی منصوبے کا ایک حصہ تھا۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ یہ گاڑیاں کافی خستہ حالت میں تھیں، جن میں عوام سفر کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے اور بی آر ٹی کے بعد بعض لوگوں نے ان میں سفر کرنا چھوڑ دیا۔
’لہذا جب صوبائی حکومت نے ان عوامی ویگنوں کو خریدنے کی بات کی تاکہ ان کو سکریپ کیا جاسکے تو کئی مالکان نے ٹرانس پشاور سے تعاون کرتے ہوئے خود اپنی گاڑیاں پیش کیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمیر خان کے مطابق: ’مجموعی طور پر اب تک 250 فورڈ ویگنوں میں سے 146 سکریپ ہوچکی ہیں۔ یہ ایک مرحلہ وار پروگرام تھا اور اس وقت ہم ساتویں مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔‘
ترجمان ٹرانس پشاور نے مزید کہا کہ ان کا ادارہ اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ کئی لوگوں، ڈرائیوروں اور مالکان کا ان گاڑیوں سے جذباتی لگاؤ اور انسیت بھی ہے، لیکن چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ہر شعبے میں جدت آتی ہے اور اب جبکہ پشاور کے عوام کو ایک نہایت آرام دہ سروس بی آر ٹی کی شکل میں دستیاب ہے، جس کا کرایہ بھی کم ہے تو اب آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
ترجمان نے مزید بتایا کہ سکریپ کے لیے ان کے پاس پشاور کے مضافات میں ایک جگہ ہے جہاں ان گاڑیوں کے ایک باقاعدہ طریقہ کار کے تحت حصے بخرے کیے جاتے ہیں۔
ٹرانس پشاور دفتر کے قریبی میدان میں تقریباً 85 فورڈویگنوں کے ڈرائیور، مالکان اور مکینک بھی اس موقع پر موجود تھے جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگرچہ حکومت ان کو تھوڑا بہت معاوضہ دے رہی ہے لیکن انہیں خدشہ ہے کہ ان کے پاس کوئی دوسرا ہنر نہ ہونے کی وجہ سے وہ مکمل بے روزگار ہوجائیں گے۔
تاہم ترجمان ٹرانس پشاور نے اس حوالے سے بتایا کہ جن ڈرائیوروں اور دیگر متعلقہ لوگوں کے تحفظات ہیں کہ عوامی ویگنوں اور بسوں کو حکومتی تحویل میں لینے سے بے روزگاری بڑھ جائے گی، انہیں حکومت ٹرانس پشاور کے ذریعے روزگار دینے کا ارادہ رکھتی ہے، لہذا جن ڈرائیوروں کے پاس ہیوی وہیکل لائسنس ہے، ان کو روزگار مہیا کیا جائے گا۔
بقول عمیر خان: ’ان کے کاروبار میں نقصان کا ازالہ بھی کیا جارہا ہے اور اس کا بھی ایک سال کا معاوضہ مقرر کردیا گیا ہے، جو ویگن کی قیمت کے ساتھ ہم ان کو دے رہے ہیں۔‘