افغان طالبان کا ایک نمائندہ وفد بدھ کو ایران کا دورہ کر رہا ہے، جہاں وہ افغانستان کی حکومت اور چند سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقات کرے گا۔
طالبان کے مطابق وفد کی سربراہی افغان طالبان کے قطر دفتر کے سیاسی سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی کر رہے ہیں۔
افغان طالبان کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق اس ملاقات میں ایران میں افغان پناہ گزینوں کے مسائل اور افغانستان میں موجودہ امن عامہ کے صورت حال پر بات چیت کی جائے گی۔
خبر رساں ادارے خامہ پریس کے مطابق افغان حکومت کی طرف سے اس وفد میں افغانستان کے صدر اشرف غنی کے مشیر سلام رحیمی، افغانستان کے سابق نائب صدر یونس قانونی، سابق نائب وزیر خارجہ ارشاد احمدی، محمد اللہ تابش، کریم خرم اور ظاہر وحدت شامل ہیں۔
نائب ایرانی وزیر خارجہ اور مغربی ایشیا کے ڈائریکٹر جنرل سید رسول موسوی نے بھی ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا: ’ایک ہی وقت میں چار افغان وفود ایرانی وزارت خارجہ کے عہدیداروں اور دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کے لیے ایرانی دارالحکومت تہران کا دورہ کریں گے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ایران بیک وقت چار افغان وفود کا میزبان ہے۔ افغان پارلیمان کے ثقافتی کمیشن کا وفد، طالبان کا اعلیٰ سطح کا سیاسی وفد، جمہوریت کا اعلیٰ سیاسی وفد اور افغان پناہ گزینوں کی شناخت کا وفد۔
افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغان سکیورٹی فورسز اور افغان طالبان کے مابین لڑائی شدت اختیار کر گئی ہے۔ افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے افغانستان کے 100سے زائد اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اگرچہ افغان حکومت نے اس بات کی تصدیق نہیں کی تاہم یہ ضرور کہا ہے کہ کچھ اضلاع میں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے پوسٹس کو خالی کرنا پڑا۔
’خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا‘
اسی صورت حال میں افغان طالبان کی جانب سے ایک وفد کو ایران بھیجنا اور وہاں افغان حکومت اور وہاں کی سیاسی جماعتوں کے نمائندگان سے ملاقات اور بات چیت کو کچھ تجزیہ کار اہم خیال کر رہے ہیں جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اس سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
مشتاق یوسفزئی پشاور میں افغان امور کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے آرہے ہیں اور افغانستان کی موجودہ صورت حال پر نظر رکھتے ہیں۔ مشتاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ ملاقات اہم ضرور ہے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آسکتا۔‘
انہوں نے بتایا: ’ایک طرف افغان طالبان افغانستان میں مختلف اضلاع پر قبضہ کر رہے ہیں، جس سے وہ مضبوط پوزیشن میں آرہے ہیں جبکہ افغانستان میں موجودہ حکومت خود کو اب کمزور سمجھ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت نے بھی اپنا وفد ایران بھیجا ہے تاکہ افغان طالبان سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر بات چیت کرسکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشتاق یوسفزئی کے مطابق: ’افغان حکومت کے پاس اب کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ ایک طرف امریکہ نکل گیا اور دوحہ میں بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔ امریکہ کے انخلا کے بعد افغان حکومت کمزور ہوگئی ہے اور اشرف غنی اب کسی نہ کسی طریقے سے طالبان کے ساتھ بات چیت ہی کریں گے لیکن اب طالبان اپنی شرائط منوائیں گے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایران میں اس ملاقات سے کوئی نتیجہ سامنے آسکتا ہے؟ انہوں نے کہا: ’افغان طالبان کے لیے قطر اور پاکستان نہایت اہم ممالک ہیں اور اس سارے معاملے میں افغان طالبان ان ممالک کو ہی دیکھتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کی: ’قطر اور پاکستان افغان طالبان کی مجبوری ہے۔ قطر اس وجہ سے ہے کیونکہ وہاں ان کا سیاسی دفتر ہے اور وہ ایک طرح سے افغانستان کا حصہ ہے کیونکہ دنیا بھر کے اعلیٰ حکومتی عہدیدار وہاں جا کر دورے کرتے ہیں اور افغان طالبان سے ملتے ہیں جبکہ پاکستان اس وجہ سے مجبوری ہے کہ یہاں پر پہلے سے افغان طالبان کے رہنما رہائش پذیر رہے ہیں اور ساتھ ہی افغان طالبان سے منسلک زخمی لوگوں کو یہاں علاج معالجے کی سہولت بھی فراہم کی جاتی رہی ہے۔‘
تاہم مشتاق سمجھتے ہیں: ’پاکستان کا اثر و رسوخ اب افغان طالبان پر اتنا نہیں رہا جتنا پہلے تھا کیونکہ پہلے افغان طالبان رہنما اپنے خاندان والوں سمیت پاکستان میں پناہ لیتے تھے لیکن اب وہ حالات نہیں ہیں کیونکہ اب افغان طالبان نے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ قائم کرلیا ہے اور وہاں بہت سے اضلاع ان کے قبضے میں ہیں۔‘
’کچھ لو، کچھ دو کا اصول‘
دوسری جانب پشاور کے سینیئر صحافی و تجزیہ کار شمیم شاہد سمجھتے ہیں کہ ایران کی جانب سے یہ ایک اچھا قدم ہے کہ افغان حکومت کے نمائندگان اور افغان طالبان کو ایک میز پر بٹھایا گیا ہے۔
شمیم شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان پر پاکستان اور امریکہ کا دباؤ موجود ہے لیکن کم از کم ایران کے ساتھ یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ وہ افغانستان کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’میں پر امید ہوں کہ اس قسم کی ملاقاتوں سے ایک اچھی فضا قائم ہو سکتی ہے جبکہ دوسری جانب افغانستان میں موجودہ حالات اور وہاں امن کو یقینی بنانے کے لیے تمام پڑوسی ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
یاد رہے کہ چھ جولائی کو خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ افغان طالبان اگلے ماہ افغان حکومت کو تحریری طور پر امن منصوبہ پیش کرنے جارہے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روئٹرز کو بتایا تھا: ’امن مذاکرات اور ان پر عمل آنے والے دنوں کے دوران تیز ہوگا اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اہم مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔‘
ذبیح اللہ مجاہد کا مزید کہنا تھا کہ’ ممکن ہے دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تحریری امن منصوبوں کا تبادلہ کرنے میں ایک ماہ کا عرصہ لگ جائے گا، اس کے باجود کہ ہمارا محاذ جنگ میں پلڑا بھاری ہے، پھر بھی ہم امن اور مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں۔'‘