تشناب اور ہوٹل کیلیفورنیا: جب ہم نے بگرام میں چار دن گزارے

نہیں معلوم امریکہ اپنی طویل ترین جنگ کا اچانک خاتمہ کرکے رات کی خاموشی میں کیوں پتلی گلی سے نکل گیا؟ بگرام جیسے بڑے فوجی اڈے کا خرچہ شاید ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ 

بگرام میں تعینات امریکی میڈیکل کور کا ایک اہلکار مشن سے قبل تیاریاں کرتے ہوئے (تصاویر: ہارون رشید)

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شمال میں بگرام کا فوجی اڈا آج کل خبروں میں ہے۔ نائن الیون کے بعد اس نے جو اہمیت حاصل کی اس کا اندازہ مجھے وہاں 2008 میں چند دن گزار کر ہوا تھا۔

انگوروں کا موسم تھا اور کابل سے بگرام جانے والی سڑک کے دونوں جانب شہر سے باہر مقامی کسان دس بارہ کلو کے انتہائی میٹھے سندرخانی انگور کے تھیلے رکھے گاہکوں کا انتظار کر رہے تھے۔ بالکل اس طرح پاکستان میں بھی ٹماٹروں اور دیگر اشیائے خوردونوش بمپر فصل کے بعد انتہائی کم نرخ پر فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔

اونچی اور بڑی کنکریٹ کی دیواروں سے چاروں اطراف گھرے اس فوجی اڈے کی وسعت کا اندازہ یہاں وقت گزار کر بھی نہیں ہو سکا تھا کیوں کہ ہمیں یہاں آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن جو کچھ دیکھا، حیران کرنے کے لیے کافی تھا۔

اس اڈے کو فتح کرنے بڑی تعداد میں پاکستانی عسکریت پسند آئے، القاعدہ اور طالبان کی مدد کے شک میں بڑی تعداد میں پاکستانی یہاں قید ہوئے لیکن امریکی قبضے کے بعد میرے جیسے صحافی بھی آئے۔

یہاں آنے کا ارادہ تو گذشتہ اگست 2007 میں کیا تھا تاکہ 11 ستمبر کی برسی کے لیے خصوصی رپورٹ تیار کر سکوں لیکن پاکستانی سرخ فیتے کی طرح امریکی فوجی حکام کی جانب سے منظوری آتے آتے اکتوبر آ گیا۔ امریکی اسے اپنی انگریزی کی اصطلاح میں ’امبیڈ‘ (embed) کہتے تھے لیکن میں اسے ’اِن بیڈ‘ یعنی ہم بستری قرار دیتا تھا۔

کابل سے کرائے کی گاڑی میں بگرام پہنچا تو شاید جنوب میں سائیڈ دروازے پر استقبال کا انتظام تھا۔ دروازہ کیا تھا، دیوار سے کوئی ایک کلومیٹر دور ہی رکنے کا کہا گیا۔ اندر سے ایک خاتون فوجی افسر لینے کوئی ایک گھنٹہ انتظار کے بعد آئیں۔ انہیں شاید ہماری شکل و صورت کچھ زیادہ مشکوک نہیں لگی، اس لیے تلاشی ہوئی نہ پوچھ گچھ۔ بس کہا، گاڑی میں بیٹھیں اور اندر جانے کے لیے تیار ہو گئے۔

ہاں داخل ہونے سے قبل ہی آپ کو ممنوعہ حرکات کی ایک دس نکاتی فہرست مہیا کر دی جاتی ہے۔ آپ تصویر یا ویڈیو نہیں بنا سکتے، آپ فوجی حکام کی غیرموجودگی میں کسی کا انٹرویو نہیں کر سکتے اور وغیرہ وغیرہ بہت کچھ نہیں کر سکتے۔ البتہ یہ شکر ہے کہ سانس لینے کی آزادی تھی۔

مجھے براہ راست میرے کمرے تک پہنچا دیا گیا۔ صحافیوں کے لیے مخصوص لکڑی کے بنے ان کمروں کو فوجی منتظمین نے ’ہوٹل کیلفورنیا‘ کا نام دیا ہوا تھا۔ اس ہوٹل میں مجھے ملنے والے ڈبے نما کمرے کا نام ’لاس اینجلس‘ تھا۔ اس ہوٹل میں ٹی وی کی سہولت بھی مفت دستیاب تھی لیکن ان پر آپ صرف امریکی فوجی چینل دیکھ سکتے تھے۔ یہ تو ان فوجیوں کی اپنے ملک سے محبت تھی کہ اس مقام کو ایسا نام دے دیا ورنہ کیلفورنیا جیسا یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ فوجیوں کی بیرک زیادہ لگ رہی تھی ہوٹل ہرگز نہیں۔ خیال آیا کہ مفت کا ٹوور ہے تو اس پر کچھ زیادہ گلہ نہیں کیا جا سکتا۔

آمد پر کھانے کے اوقات اور دیگر معلومات پر مبنی ایک کاغذ تھما دیا گیا، جس کے آخر پر ایک عبارت نے کان کھڑے کر دیے۔ لکھا تھا: ’آپ کسی بھی وقت جب چاہیں چیک آؤٹ کرسکتے ہیں لیکن آپ یہاں سے جا کبھی نہیں سکتے۔‘

ایک اور انتہائی دلچسپ بات واش رومز میں ہر تشناب کے اوپر لگے کمپوٹر پرنٹ آؤٹ تھے، جن میں فوجیوں کو اپنے پیشاب کا رنگ میچ کرکے یہ تعین کرنا تھا کہ وہ کہیں جسم میں پانی کی کمی کا شکار تو نہیں۔ جتنی زیادہ پیلاہٹ اتنی زیادہ ڈی ہائیڈریشن۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سال 2001 کے بعد سے میں پہلے کوئٹہ اور پھر پشاور سے پاک افغان سرحد پر پیش آنے والے واقعات کی رپورٹنگ کرتا رہا ہوں۔ میرے یہاں آنے کا مقصد لاس اینجلس کی سیر کرنا نہیں بلکہ اس سرحد کی دوسری جانب اتحادی افواج کی کارروائیاں دیکھنا تھا۔ کوشش تھی کہ میں یہ جان سکوں کہ پاکستان کے اس وقت کے فاٹا میں تعینات تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار اور افغانستان میں موجود تقریباً 50 ہزار اتحادی فوجی آج تک کیوں اس سرحد کو بند نہیں کرسکے۔ میری کوشش یہ معلوم کرنا تھا کہ آیا سرحد کے آر پار مسائل ایک طرح کے ہیں یا مختلف؟

بگرام میں نئی عمارتیں، یا انہیں بنکر کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا، بنتے دیکھیں۔ چار یا پانچ فٹ موٹی دیواریں بنائی جا رہی تھی جو امن کی امید میں ہرگز نہیں بنائی جا رہی تھیں۔

اتحادی افواج کے مخالفین کے لیے ایک تشویش کی بات ان اڈوں پر ان فوجیوں کے لیے ان دنوں مستقل دفاتر اور رہائشی عمارتوں کی جاری تعمیر تھی۔ جب ابتدا میں امریکہ نے ان اڈوں پر قبضہ کیا تھا تو فوجیوں کو خصوصی ہدایات تھیں کہ وہ مستقل عمارتیں تعمیر نہ کریں۔ بہت سے لوگوں کو اس وقت گمان ہوا کہ اب یہ مستقل یا کم از کم ایک لمبے عرصے کے لیے یہاں قیام کی تیاری کر رہی ہیں۔ امریکی فوجیوں کی موجودگی کے دوران اکثر امریکی صدور اور وزیر حوصلہ بڑھانے یہیں آتے تھے۔  

لیکن نہیں معلوم امریکہ اپنی طویل ترین جنگ کا اچانک خاتمہ کرکے رات کی خاموشی میں پتلی گلی سے کیوں نکل گیا؟ بگرام جیسے بڑے فوجی اڈے کا خرچہ شاید ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ 

اس وقت کثیر الملکی افواج یعنی آئساف کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل رچرڈ بلانشے نے ایک بیان میں وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ جب تک افغان عوام چاہیں گے یہ فوجی افغانستان میں رہیں گے، لیکن آج وہ سب افغان عوام خود کو اکیلا محسوس کر رہے ہیں، جو جنگ چاہتے ہیں نہ حکومت اور ان کا واحد مطالبہ امن ہے ۔

بگرام میں باقی کئی ممالک کی طرح بھارتی سویلین ورکرز بھی بڑی تعداد میں دیکھے جو سویلین کاموں کے لیے لائے گئے تھے۔ پیزا ہٹ اور کے ایف سی کے کنٹینروں میں بنے آؤٹ لیٹس بھی گرما گرم کھانے مہیا کر رہے تھے۔ مقصد شاید اپنے ملک کی یاد کو کم کرنا تھا۔

یہاں بہت سی دکانیں بھی تھیں جہاں مختلف اشیا بے حد سستے داموں دستیاب تھیں۔ یہیں سے میں نے اپنی زندگی کا پہلا انٹرنیٹ ریڈیو خریدا تھا، جو آج بھی گھر کے کسی کونے میں پڑا دھول اکٹھی کر رہا ہے۔

ایک روز رن وے پر طبی امداد کے لیے مخصوص امریکی ہیلی کاپٹر کے عملے سے گپ شپ جاری تھی کہ رن وے پر پرواز بھرتے ڈرون کو دیکھ کر ان کی تصویر بنانے کی ناکام کوشش کی۔ اس وقت باضابطہ طور پر تو نہیں بتایا گیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ میری یہ حرکت انہیں پسند نہیں آئی تھی۔

دو دن قیام کے بعد اندھیری رات میں سی ون تھرٹی میں بگرام سے جلال آباد اور پھر شنوک میں کنڑ کے لیے روانا ہو گئے۔ واپسی پر دوبارہ بگرام کے درشن ہوئے۔ ایک وسیع و عریض ایئر بیس، جیل اور معلوم نہیں اور کیا کچھ۔ امید ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز اتنی بڑی تنصیب اور پیچھے بغیر بتائے چھوڑے جانے والے جنگی سازوسامان کو مناسب طریقے سے سنبھال پائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ