افغان حکومت نے صوبائی درالحکومت کے دفاع کے لیے سینکڑوں فوجی کمانڈوز کو طیاروں کے ذریعے قلعہ نو میں اتارا ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کو اس علاقے سے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق بادغیس میں اس وقت بھی شدید لڑائی جاری ہے۔
ادھر پینٹاگون کے مطابق امریکہ نے افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کا 90 فیصد عمل مکمل کر لیا ہے جس کے بعد طالبان نے نئے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے جارحانہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کی فضائی مدد کے بغیر افغان افواج بکھر کر رہ جائیں گی۔
بادغیس کے محکمہ صحت کے عہدیدار عبد اللطیف روستائی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی بتایا ہے کہ لڑائی شروع ہونے کے بعد کم از کم دس شہریوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
بادغیس کے گورنر حسام الدین شمس نے جمعرات کو بتایا کہ ’طالبان نے کئی اطراف سے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کے ذریعے اپنے حملے دوبارہ شروع کر دیے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہماری سکیورٹی فورسز بہادری سے ان کا مقابلہ کر رہی ہیں اور دشمن کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے، وہ فرار ہو رہے ہیں۔ ہم دشمن کو سخت نقصان پہنچائیں گے۔‘
اس سے قبل بدھ کو طالبان نے صوبائی پولیس ہیڈ کوارٹرز اور ملک کی خفیہ ایجنسی کے مقامی دفتر پر قبضہ کر لیا تھا تاہم بعد میں انہیں پیچھے دھکیل دیا گیا۔
تاہم قلعہ نو کے رہائشی عزیز توکولی نے بتایا ہے کہ ’طالبان جنگجو اب بھی شہر میں گھوم رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آپ طالبان کو اپنی موٹر سائیکلوں پر سڑکوں پر گھومتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔‘
توکولی نے بتایا کہ شہر کے 75 ہزار افراد میں سے بہت سے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر قریبی اضلاع یا صوبہ ہرات فرار ہو گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’شہر میں دکانیں بند ہیں اور سڑکیں ویران پڑی ہیں۔ ہیلی کاپٹروں اور طیاروں نے رات کے وقت طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔‘
بادغیس کی صوبائی کونسل کے رکن ضیا گل حبیبی کہتے ہیں کہ افغان فورسز کی کارروئیوں میں طالبان کو جانی نقصان ہوا ہے لیکن انہوں نے شہر کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’صوبے کے تمام اضلاع ان کے کنٹرول میں ہیں۔ لوگ حقیقتاً خوف میں مبتلا ہیں۔ تمام دکانیں اور سرکاری ادارے بند ہیں۔ ابھی بھی کہیں کہیں لڑائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔‘
شہر میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن پری سیلہ ہیروائی نے طالبان کی آمد کے تناظر میں خاص طور پر خواتین کے تحفظ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ تمام خواتین خصوصاً انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکنوں کے لیے ہنگامی صورتحال ہے۔ اگر طالبان شہر پر قابض ہو گئے تو ہم کام نہیں کرسکیں گی۔‘
بدھ کو اس حملے کی خبر پھیلتے ہی سوشل میڈیا پر جھڑپوں کی ویڈیوز کی بھرمار ہو گئی۔
کچھ ویڈیوز میں موٹرسائیکلوں پر مسلح طالبان جنگجوؤں کے شہر میں داخل ہونے اور اس پر وہاں کھڑے افراد کو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مقامی عہدیداروں نے بتایا کہ طالبان کے شہر میں داخل ہونے کے بعد کچھ سکیورٹی افسران نے ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے اور طالبان نے سینکڑوں قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے سٹی جیل کے دروازے کھول دیے۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ بیشتر قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان وزارت دفاع نے شمال مغربی صوبے بادغیس کے درالحکومت قلعہ نو کے قریب ایک آپریشن کے دوران 69 طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
طالبان اپنی تازہ کارروائیوں کے دوران گذشتہ روز صوبائی دارالحکومت میں داخل ہو گئے تھے۔
کابل میں وزارت دفاع نے ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایا کہ ’بادغیس کا درالحکومت اب ہمارے کنٹرول میں ہے اور ہم شہر کے مضافات میں طالبان کے خلاف آپریشن کر رہے ہیں۔‘
وزارت دفاع کے ترجمان فواد امان نے بتایا کہ سرکاری فوج نے بڑی تعداد میں طالبان کے اسلحے اور گولہ بارود پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
اگرچہ درالحکومت قلعہ نو پر قبضے کے لیے جنگ جاری ہے تاہم صوبہ بادغیس کا باقی حصہ طالبان کے قبضے میں ہے۔
مغربی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی انخلا کے اعلان کے بعد طالبان نے افغانستان کے 100 سے زیادہ اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے۔
دوسری جانب طالبان کا دعویٰ ہے کہ ملک کے آدھے حصے پر مشتمل 34 صوبوں کے 200 اضلاع پر ان کا قبضہ ہے۔