حکومت نے کراچی کے ساحل کے قریب سمندر میں تیل اور گیس کے ذخائر نہ ملنے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ حکومت نے یہ اعلان کھدائی کے بعد متعلقہ کمپنی کی تجزیاتی رپورٹ آنے سے پہلے ہی کردیا ہے، جو سمجھ سے بالاتر ہے۔
وفاقی حکومت نے رواں برس جنوری میں پاکستان کی آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)، اٹلی کی ای این آئی، امریکی کمپنی ایگزون موبیل اور پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے اشتراک سے اس پراجیکٹ پر کراچی سمندر کے قریب کیکڑا کے مقام پر سمندر میں کنویں کی کھدائی کے کام کا آغاز کیا تھا۔
اٹلی کی ای این آئی کمپنی، سیفمین کمپنی کی مدد سے کھدائی کا کام کر رہی تھی۔ اسی پراجیکٹ سے منسلک ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت نے ذخائر کا اعلان کرنے میں بہت جلدی کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مطلوبہ کھدائی کا جو ہدف تھا، وہ حاصل کرلیا گیا ہے اور کمپنی نے اپنے بورڈ کو اتنا ہی بتایا ہے کہ کھدائی کا کام مکمل ہوگیا ہے اور رپورٹ بعد میں تیار ہو کر سامنے آئے گی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس کمپنی نے حکومت پاکستان کے ساتھ یہ رپورٹ شیئر کی ہے کہ تیل کے ذخائر نہیں ملے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق ابھی حکومت کے ساتھ ایسا کچھ شیئر نہیں کیا گیا کیونکہ نمونے لے کر ٹیسٹنگ کے بعد جو رپورٹ بننی ہے، وہ ابھی تیار ہی نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اس رپورٹ کی تیاری کے لیے بعض مرتبہ مہینے درکار ہوتے ہیں، لیکن کبھی کبھار یہ چند ہفتوں میں بھی بن سکتی ہے۔ جہاں تک اس رپورٹ کا تعلق ہے تو اس کا آنا ابھی باقی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس رپورٹ میں یہ بات سامنے آئے گی کہ کیا اس سائٹ پر ہائیڈروکاربن موجود ہے یا نہیں، تاہم ان کے مطابق ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کپمنی ٹیسٹنگ کے بعد کچھ کلیو مل جائے اور وہ مزید کھدائی کریں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ہائیڈرو کاربن مل جائیں تو اس کے بعد کیا پلان ہوگا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اگر ہائیڈروکاربن کے ذخائر مل بھی جائیں تو اس کے بعد فزیبیلٹی کو دیکھا جائے گا کہ اس کو نکالنے اور صاف کرنے پر کتنا خرچہ آئے گا اور تب ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا پروڈکشن پر کام شروع کیا جائے یا نہیں۔
کھدائی کے مراحل کیا ہوتے ہیں؟
سب سے پہلے ابتدائی رپورٹ تیار کی جاتی ہے اور اس بات کو دیکھا جاتا کہ آیا جگہ کھدائی کے لیے مناسب ہے یا نہیں اور اس پر کتنا خرچہ (یعنی 50 سے 100 ملین) آسکتا ہے، جس کے بعد کھدائی پر کام شروع کیا جاتا ہے۔
مطلوبہ کھدائی تک پہنچنے کے بعد ٹھیکیدار یا کمپنی کنویں کو کیپ کرکے اس کے نمونے (کٹنگز) تجزیے اور ٹیسٹ کے لیے بھیجتے ہیں تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ اس میں ہائیڈروکاربن موجود ہے یا نہیں۔
اگر نمونوں میں ہائیڈروکاربن کے اثاثے پائے جاتے ہیں تو صرف اتنا کہنا ممکن ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں اس جگہ پر ہائیڈروکاربن موجود تھا۔ مثبت ٹیسٹ آنے کے بعد پریشر اور ممکنہ تیل کے ذخائر کی مقدار کو معلوم کیا جاتا ہے۔
اس مرحلے کے بعد اسی جگہ کے اندر ایک سنسر کو ڈال دیا جاتا ہے تاکہ تفصیلی ریکارڈ جمع کیا جاسکے اور یہ وہی مرحلہ ہے، جس پر کنویں کی کامیابی یا ناکامی کا پتہ چل سکتا ہے۔
اگر سنسر کی مدد سے تفصیل اکھٹا ہونے کے بعد یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہائیڈروکاربن موجود ہے تو کچھ ہائیڈرو کاربن کو نکال کر دوبارہ ٹیسٹ کے لیے بھجوایا جاتا ہے اور یہ ڈرلنگ مکمل ہونے کا آخری مرحلہ ہوتا ہے۔
کیکڑا میں کھدائی کے حوالے سے ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈرلنگ کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے اور اس مرحلے پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ واقعی یہ پراجیکٹ ناکام ہوگیا ہے اور تیل کے ذخائر نہیں ملے ہیں۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے ترجمان اور لیگل ونگ کے آفیسر احمد حیات لک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ بات درست ہے کہ اس ڈرلنگ کی تجزیاتی رپورٹ ابھی آنی ہے لیکن کھدائی کے دوران کمپنیاں بہت سارا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہائیڈرو کاربن موجود ہے یا نہیں۔‘
تاہم انہوں نے یہ ضرور بتایا کہ ’ایسا بالکل نہیں کہ یہ کمپنیاں ابھی چلی جائیں گی۔ ابھی مزید کام بھی کرنا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ان جگہوں پر کھدائی کا کام ہو اور زیادہ ہو۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ کمپنی کی رپورٹ کے بعد مزید دیکھا جائے گا کہ مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر تیل کے ذخائر مل بھی جائیں تو بعد میں اس بات کو دیکھا جائے گا کہ یہ کمرشلی کتنا قابل عمل ہے۔ ’ہم چاہتے ہیں کہ مزید کھدائی ہو اور مزید کنویں دریافت ہوں، لیکن پوری دنیا میں ڈرلنگ کی کامیابی کا تناسب ایسا ہے کہ 10 کنوؤں میں سے صرف ایک کامیاب ہوتا ہے۔‘
کھدائی پر خرچے کی مد میں کتنا نقصان ہوا؟
اس حوالے سے حیات لک نے بتایا کہ 100 ملین ڈالر سے جو زائد رقم اس پر خرچ ہوئی ہے یہ چاروں کمپنیوں پر تقسیم تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس پراجیکٹ پر 60 ملین ڈالر پاکستانی کمپنیوں اور 40 ملین ڈالر غیرملکی کمپنیوں نے خرچ کیے۔
اس سارے معاملے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیر برائے پٹرولیم عمر ایوب خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔
تاہم وزارت کی جانب سے جاری کی گئی ایک پریس ریلیز کے مطابق کیکڑا ون پر 5492 میٹر کی گہرائی حاصل کرنے کے بعد 140 میٹر مزید کھدائی کی گئی لیکن پانی کا تناسب زیادہ ہونے کی وجہ سے ہائیڈروکاربن کا مطلوبہ ذخیرہ نہ مل سکا۔
پریس ریلیز کے مطابق کیکڑا میں موجود ذخائر میں پانی کا تناسب زیادہ ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ابھی مزید 55 میٹر کھدائی کی جائے گی اور اس کے بعد کنویں کو بند کیا جائے گا جس پر ڈرلنگ کمپنیوں نے حامی بھرلی ہے۔