فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے افغان وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ مہینوں میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں پر قابو پانے کے لیے افغان حکام نے ہفتے سے جنگ زدہ ملک کے 34 میں سے 31 صوبوں میں رات کا کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے مکمل انخلا کے اعلان کے بعد مئی کے آغاز سے ہی طالبان نے کئی اہم باڈر کراسنگز سمیت سینکڑوں اضلاع پر قبضہ اور کئی صوبائی دارالحکومتوں کا محاصرہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے افغانستان میں بحران کی سی کیفیت ہے۔
افغان وزارت داخلہ نے ہفتے کو جاری ایک بیان میں کہا: ’تشدد پر قابو پانے اور طالبان کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے ملک کے 31 صوبوں میں رات کے وقت کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔‘
تاہم بیان میں بتایا گیا کہ کابل، پنجشیر اور ننگرہار میں کرفیو نہیں لگایا جا رہا۔
وزارت داخلہ کے نائب ترجمان احمد ضیا ضیا نے صحافیوں کو ایک الگ صوتی بیان میں بتایا کہ کرفیو مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے سے صبح چار بجے کے درمیان نافذ رہے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ سمیت تمام غیر ملکی افواج کا انخلا تقریباً مکمل ہونے کو ہے اور اس پیش رفت کے بعد طالبان نے افغانستان کے تقریبا 400 اضلاع میں سے نصف پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
عید الاضحی کی تعطیلات کے دوران تشدد میں مختصر وقفے کے خاتمے کے بعد افغان حکام نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کئی صوبوں میں گذشتہ لڑائی میں 260 سے زیادہ طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
لڑائی کے دوران اپنے مخالفین کے ہونے والے جانی نقصان کے حوالے افغان حکام اور طالبان دونوں ہی اپنے دعووں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جن کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے جمعے کو کہا کہ جب حالیہ ہفتوں میں پھیلتی ہوئی جنگ کے دوران امریکی فوج کو انخلا کے جاری عمل کے باوجود طالبان کی کارروائیوں کو پسپا کرنے کے لیے افغان فورسز کی ’مدد‘ کرتے ہوئے فضائی حملے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ مئی کے بعد سے امریکی فضائی مدد سے محروم ہونے کے بعد افغان فورسز طالبان کے ہاتھوں بہت سے علاقے کھو چکے ہیں۔
جمعے کی شب طالبان نے امریکی فوج کو فضائی حملوں کے خلاف خبردار کیا تھا۔
طالبان نے ایک بیان میں واشنگٹن اور عسکریت پسند گروپ کے درم یان گذشتہ سال فروری میں ہونے والے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’یہ (امریکی فضائی کارروائی) ہمارے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہے جس کے اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘
طالبان نے افغان حکومت کو بھی کسی قسم کی کارروائی شروع کرنے کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا گروپ ’اپنے زیر کنٹرول علاقوں کا مضبوطی سے دفاع کرے گا اور اگر دشمن جنگ پر زور دیتا ہے تو وہ دفاعی حکمت عملی ترک کر دیں گے۔‘
اُدھر افغان طالبان نے پاکستان سے متصل سرحدی صوبہ قندھار کے ضلع سپن بولدک میں عام شہریوں اور ہتھیار ڈالنے والے افرادکے قتل کے الزامات کو مسترد کرتےہوئے اسے پروپیگنڈا قراردیا ہے۔
اسلامی امارت کے ترجمان قاری محمد یوسف احمدی نے اپنے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا ہے کہ طالبان کے ضلع سپن بولدک پر قبضہ کرنے کے بعد ، ہتھیار ڈالنے والے تمام فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا اور وہاں کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بولدک کے علاقے میں ذاتی دشمنی کی وجہ سے 4 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے اور وہ قصورواروں کو گرفتار کرنے اور مقدمے کی تحقیقات کے لئے کوشاں ہیں۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں ’طالبان کے ہاتھوں ہلاکتوں کی بے بنیاد افواہوں کے پیش نظر،ہم انسان دوست اور بین الاقوامی تنظیموں اور میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حقائق جاننے کے لیے سپن بولدک کا دورہ کریں۔‘
یاد رہےکہ افغان صوبہ قندھار کا سرحدی ضلع سپن بولدک جو طالبان کے قبضے میں ہے۔ جہاں 100 عام شہریوں کو قتل کی خبریں گردش کررہی ہیں۔
افغانستان کے ایک ٹی وی چینل طلوع نیوز نے رپورٹ دی تھی کہ سپن بولدک میں عام شہریوں کو قتل کیا گیا ہے۔ جس کی افغانستان کے وزارت داخلہ نے بھی تصدیق کی تھی۔