نور مقدم قتل کیس میں پولیس حکام کے مطابق ملزم ظاہر جعفر نے سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائے جانے پر اعتراف جرم کر لیا ہے، جس میں قتل کی وجہ ’دھوکہ‘ اور ’بے وفائی‘ بتائی گئی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے منگل کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزم ظاہر نے پولیس کو قتل کی وجہ بتاتے ہوئے کہا: ’نور مقدم میرے ساتھ بے وفائی کررہی تھی جس کا دکھ تھا۔ جب پتہ چلا تو اُسے روکا بھی مگر وہ نہیں مانی۔ میرے لیے بے وفائی ناقابل برداشت تھی۔‘
پولیس حکام کے مطابق ملزم کا 161 کا بیان ریکارڈ ہو چکا ہے اور بدھ کو انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اب ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوایا دیا جائے گا۔
اس سے قبل ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ملزم ظاہر جعفر نے کہا تھا کہ سوالات کے جواب ان کے وکیل دیں گے اور وہ ایک امریکی شہری ہیں۔
دوسری جانب اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے منگل کو ایک ٹویٹ کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی غیر ملک میں مقیم امریکی شہریوں پر وہاں کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ ’اگر کوئی امریکی کسی اور ملک میں گرفتار ہوتا ہے تو سفارت خانہ اسے وکلا کی فہرست فراہم کرسکتا ہے اور اس کی دیکھ بھال کر سکتا ہے لیکن اس کی رہائی میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔‘
In a foreign country, U.S. citizens are subject to that country’s laws. When Americans are arrested abroad, the Embassy can check on their well-being and provide a list of lawyers, but cannot provide legal advice, participate in court proceedings or effect their release.
— U.S. Embassy Islamabad (@usembislamabad) July 27, 2021
161 اور 164 کا بیان
قانون کے مطابق 161 ملزم کا زبانی بیان ہوتا ہے جو وہ تفتیشی افسر کے سامنے دوران تفتیش دیتا ہے۔ پولیس اپنی تفتیش میں جمع کیے گئے ثبوت اور زبانی بیان کو چالان کا حصہ بنا کر عدالت میں پیش کرتی ہے، جس کے بعد ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق 161 کے بیان کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ اس میں ملزم یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ دباؤ کا شکار تھا۔ دوسری جانب 164 کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے اور کمرے میں ملزم اور مجسٹریٹ کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہوتا۔ یہ تحریری بیان ہوتا ہے جس کی قانونی حیثیت ہوتی ہے۔ ملزم بیان سے پہلے حلف دیتا ہے کہ وہ بغیر دباؤ اور ہوش و حواس کے ساتھ یہ بیان دے رہا ہے۔
مدعی کے وکیل شاہ خاور نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو یہی بتایا تھا کہ سات روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر چالان پیش کر دیا جائے گا اور ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیجا جائے گا۔
پولیس نے واردات کی فوٹیج میں کیا دیکھا؟
اعلیٰ پولیس حکام کے مطابق پہلے پہل ملزم قتل کی وجوہات کبھی کچھ اور کبھی کچھ بتاتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم ظاہر جرم سے بھی انکار کر رہا تھا لیکن ایف سیون فور میں واقع ملزم کے مکان میں تین سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب تھے جن کی فوٹیج پولیس نے حاصل کی۔
پولیس کے مطابق ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ منگل کی سہ پہر تقریباً چار بجے حالات کشیدہ ہوئے جب نور مقدم ساڑھے چار بجے بالکنی سے بھاگ کر باہر گارڈ کے پاس آتی ہیں، جس کے بعد وہ اپنے آپ کو سکیورٹی گارڈ کے کیبن میں بند کر لیتی ہیں۔
ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ظاہر لاؤنج کے دروازے سے باہر نکل کر گارڈ کے کیبن تک آتے ہیں اور کیبن سے نور کو نکال کر گھسیٹ کر واپس اندر لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باہر موجود گارڈ یہ سب کچھ دیکھتے رہے لیکن کسی بھی گارڈ نے ظاہر جعفر کو تشدد کرنے سے نہ روکا۔
انہوں نے بتایا کہ فوٹیج کے مطابق گلی میں اور لوگ بھی موجود تھے، جنہوں نے نور کو گھسیٹتے ہوئے دیکھا تھا۔ پولیس نے ان کا بیان حاصل کیا ہے۔
پولیس حکام نے مزید بتایا کہ ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ملزم مقتولہ کو دوبارہ اوپر لے کر گیا جبکہ تشدد سے لے کر قتل کے درمیان تین گھنٹے کا وقت تھا۔
معلومات کے مطابق جس وقت یہ معاملہ ہوا اس وقت گارڈ اور گھریلو ملازم نے ظاہر کے والدین کو فون کیا اور گھر میں ہونے والے معاملے سے آگاہ کیا جس پر انہوں نے پولیس کی بجائے تھیراپی ورک کے عہدیداروں کو طلب کرکے ظاہر کو قابو کرنے کا کہا۔ ظاہر جعفر کی والدہ خود بھی ماہر نفسیات ہیں اورتھیراپی ورک سے منسلک ہیں، انہوں نے ہی کراچی سے تھیراپی ورک کو فون کیا تھا۔
سرکاری معلومات کے مطابق فون کے بعد تھیراپی ورک کے چند افراد وہاں آئے اور ظاہر سے کمرے سے باہر آنے کی درخواست کرتے رہے لیکن نظر آنے والی فوٹیج کے مطابق ظاہر کمرے کی بالکونی میں کھڑے ہو کران سے مذاکرات کرتے رہے لیکن نیچے نہیں آئے۔ اس کے بعد وہ واپس اندر کمرے میں چلے گئے اور اسی دوران نور کا قتل ہو جاتا ہے۔ جبکہ اسی اثنا میں پڑوس میں سے پولیس کو فون کال کر کے وقوعہ کے بارے میں اطلاع دی گئی۔
انتظار کے بعد جب ظاہر دوبارہ نمودار نہیں ہوئے تو باہر کھڑے افراد اندر کمرے کے دروازے تک گئے، لیکن دروازہ بند تھا۔ پھر وہ باہر آئے اور سیڑھی لگا کر ٹیرس پر چڑھے اور وہاں سے کمرے کی کھڑکی سے کمرے میں داخل ہوئے تو اندر داخل ہونے والے پہلے شخص پر ظاہر نے لوہے کے مکے اور خنجر سے وار کیے جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ زخمی کو بعد ازاں پمز میں منتقل کیا گیا جہاں اس کا آپریشن ہوا۔
کمرے میں نور کی لاش فرش پہ تھی۔ فرش پر خون تھا اور ظاہر کے کپڑوں پر بھی خون لگا ہوا تھا۔
کمرے میں موجود چادر اور دوپٹے کے مدد سے ظاہر کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے جبکہ اسی اثنا میں پولیس بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی تھی۔
پولیس نے موقع سے آلہ قتل برآمد کر کے ملزم کو حراست میں لے لیا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق یہ منگل کی شام چار سے لے کر رات آٹھ بجے تک کی تفصیلات ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم کی والدہ اور سکیورٹی گارڈز نے تین گھنٹے تک واقعہ چھپایا۔ ملزم کی والدہ یا سکیورٹی گارڈز اگر بروقت اطلاع دیتے تو نور کی جان بچائی جا سکتی تھی۔
جائے وقوعہ کا منظر
انڈپینڈنٹ اردو نے ملزم کے مکان کا بیرونی جائزہ لیا۔ مکان بند ہے اور پولیس کی نگرانی میں ہے۔ کائی زدہ دیواروں والے دو منزلہ مکان کی دیواروں پر بھورا رنگ کیا گیا ہے اور اس کا دروازہ ہلکا کتھئی ہے۔
مکان کی دوسری منزل کی تین کھڑکیاں سڑک کی جانب کھلتی ہیں جن میں سے ایک بالائی لاؤنج کی جبکہ باقی دائیں اور بائیں جانب کمروں کی کھڑکیاں بالکنی میں کھلتی ہیں جن میں سے ایک ظاہر کا کمرہ ہے جہاں سے نور مقدم نے نیچے پورچ میں چھلانگ لگا کر خود کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملزم اس وقت جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہے۔ مکان پر تعینات سکیورٹی کمپنی کے گارڈ نے بتایا کہ وہ عید کے بعد آئے ہیں اس لیے واقعے کے چشم دید گواہ نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جس گارڈ نے واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اسے پولیس نے گرفتار کر لیا۔ مکان کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ اس کے سامنے والے پورشن میں تین سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے۔
ایک کیمرا گارڈ کے کیبن کے اوپر جبکہ بقیہ دو کیمروں میں سے ایک کار پورچ جبکہ دوسرا اندرونی عمارت کے داخلی دروازے کے باہر نصب ہے۔ مکان کے بائیں جانب کونے والا کمرہ ظاہر جعفر کا ہے جس کی کھڑکی سے نظر آتا ہے کہ پردے کی ریلنگ دھینگا مشتی میں اکھڑ گئی ہے۔
واقعے کا پس منظر
گذشتہ منگل 20 جولائی کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ملزم ظاہر جعفر کو موقعے سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
ملزم ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں، جو جعفر گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔ پولیس نے جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکرجعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی حراست میں لے کر دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر رکھا ہے۔