پاکستان بھر میں نور مقدم کے قتل کے بعد ان کی یاد میں آج (اتوار) کو مختلف شہروں میں سماجی کارکنان اور شہریوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا جس میں نور مقدم کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی اور خواتین پر تشدد کی پر زور مذمت کی گئی۔
اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے سماجی کارکنان اور شہریوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور احتجاج کیا جس میں شرکا نے ملزمان کے خلاف نعرے لگائے۔
اسلام آباد کے ہی سیکٹر ایف سیون میں جہاں نوم مقدم کو قتل کیا گیا تھا اس کے قریب ہی واقع سوئس پارک میں بھی شہریوں کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور نور مقدم کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔
اس موقع پر انڈپینٹنٹ اردو نے علاقہ مکین حرا سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں اندر سے ڈر گئی ہوں، ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے میں اب گھر سے نکلنے پر بھی ڈرتی ہوں۔ پاکستان میں پہلے بھی عورت کی اہمیت نہیں تھی اور اس واقعے نے رہی سہی اہمیت کو بھی ختم کر دیا ہے۔‘
احتجاج کے شرکا کا کہنا تھا کہ نور کو قتل کرنے والے کو نا صرف عبرت کا نشان بنانا چاہیے بلکہ حکومت آیندہ بھی ایسے واقعات کو روکنے کے لئے قانون سازی کرے اور قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرائے تا کہ خواتین کے ساتھ ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے احتجاج میں شریک ایک اور خاتون کا کہنا تھا کہ ہمیشہ کی طرح ایک نئی عورت کا نام سامنے آ جاتا ہے اور اس دفعہ ہمارے سامنے نور ، صائمہ اور قرۃ العین ہیں جو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔
احتجاج میں شریک دانش علی کا کہنا تھا کہ مردوں کو چاہیے کے وہ بھی جاگیں اور باہر نکلیں اپنے معاشرے کی خواتین کے ساتھ کھڑے ہوں اور یہ واقعہ انتہائی ظالمانہ اور افسوسناک ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نور مقدم کے قتل کے خلاف خواتین اور دیگر سماجی کارکنان نے ملتان میں بھی مظاہرہ کیا ۔مظاہرے کے شرکاء نے نور مقدم کے قاتل کو کڑی سے کڑی سزا دینے اور پاکستان میں خواتین پر ظلم کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس مظاہرے میں خواتین کے ساتھ مردوں نے بھی حصہ لیا۔
یاد رہے کہ پاکستان کے سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کو گذشتہ ہفتے اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون کے ایک گھر میں گلا کاٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
کوہسار پولیس نے اسی گھر سے ظاہر ذاکر جعفر کو گرفتار کر کے تیز دھار آلہ قتل بھی برآمد کیا جبکہ گھر کے دو ملازمین سے بھی تفتیش کی جاری ہے۔