افغانستان سے امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد طالبان کے حملوں میں شدت آگئی اور پورے ملک میں سیکیورٹی فورسز پر حملے جاری ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے پیش قدمی کے ساتھ ساتھ سرحدی تجارتی گزرگاہوں پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔
ان راستوں سے پورے ملک کو تجارتی سامان کی سپلائی ہوتی ہے۔ چند روز قبل دوہفتے کی بندش کے بعد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن سے تجارتی سامان سے لدی گاڑیاں افغانستان کی حدود میں داخل ہورہی تھیں۔ یہ گاڑیاں دو ہفتے سے چمن میں سرحد کھلنےکے انتظار میں کھڑی تھیں۔
افغانستان ایک ایسا خطہ ہے جس میں کوئی سمندر نہیں ہے اور یہ مختلف ممالک سے صرف زمینی راستوں کے ذریعے منسلک ہے۔ اس لیے اسےلینڈ لاک ملک بھی کہا جاتا ہے۔
اس معاملے میں افغانستان کا انحصار ہمسایہ ممالک پر ہے جن میں وسط ایشائی ممالک ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، ایران، پاکستان شامل ہیں جہاں سے اس کو اشیائے خورد ونوش اور دیگرسامان کی ترسیل ممکن ہوتی ہے۔
سرحدوں پر قبضے کی حکمت عملی کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ان کا مقصد ایک طرف کابل حکومت پر دباؤبڑھانا ہے دوسری جانب ان کے ذرائع آمدن ختم کرنا ہے۔
افغان طالبان رہنما جار اللہ آغا نے ایک ویڈیو انٹرویو میں کہا ’ہم نے مالی اور اقتصادی امور کو دیکھنے والے طالبان رہنماؤں کو ہدایت کی ہے کہ جتنا جلد ہو سکے ان سے سرحد پر موجود ٹرکوں سے ٹیکس وصول کر کے انہیں جانے دیا جائے۔‘انہوں نے اس موقع پر تاجر برادری کو یقین دلایا تھا کہ’یہاں سارے عمل کو شفاف رکھا جائے گا۔‘
کابل میں مقیم معروف تجزیہ کار نجیب اللہ آزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طالبان کے سرحدوں پر قبضے اور ٹیکس کی وصولی سے سامان کی ترسیل میں پچاس فیصد تک کمی ہوچکی ہے۔
انہوں نےبتایا کہ طالبان کی اس حکمت عملی سے کابل حکومت پر زیادہ اثر نہیں پڑ رہا بلکہ اس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
نجیب کے بقول: دو ہفتوں کے دوران افغانستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں دو گنا اضافہ ہوگیاہے جو پیٹرول دو ہفتے قبل 40 سے 45 افغانی میں مل رہا تھا وہ اب 70 افغانی تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسری اہم ترین ضرورت گیس کی ہے۔ جو پہلے 35 افغانی فی کلو مل رہی تھی وہ اب 80 افغانی ہوگئی ہے۔
نجیب نے بتایا کہ طالبان نے تجارت میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی لیکن وہ سرحدوں پر افغانستان میں داخل ہونے والے گاڑیوں سے ٹیکس وصول کررہے ہیں۔
افغانستان میں اہم تجارتی بندرگاہیں جو وسطیٰ ایشائی ممالک کے علاوہ پاکستان اور ایران سے منسلک ہیں ان میں تاجکستان سے متصل شیرخان، ازبکستان سے حیرتان، ترکمانستان سے تورغنڈی، ایران سے اسلام قلعہ ، ابونصر فراحی ایران اور سپن بولدک جو پاکستان سے ملاتا ہے۔
دوسری جانب جن سرحدوں پر طالبان قابض ہیں۔ وہاں پر ان کا ٹیکس لینے کا بھی اپنا طریقہ کار ہے۔
نجیب کے مطابق: طالبان سرحدوں پر اس حساب سے ٹیکس وصول نہیں کررہے ہیں کہ تجارتی گاڑیوں میں سامان کیا ہے چاہے وہ سونا ہو یا کچھ اور بلکہ وہ گاڑیوں کے ٹائر کے حساب سے پیسے وصول کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جتنی بڑی گاڑی ہوگی جیسے ٹرالر وغیرہ، اتنا ہی زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے اور باقی گاڑیوں کے بھی ٹائر گن کر اس کے حساب سے ٹیکس وصول کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
نجیب کا ماننا ہے کہ ملک میں صورتحال پہلے جیسی نہیں ہے کیوں کہ طالبان کے سرحدوں پر قبضے کے بعد تجارت کم ہوگئی ہے اور دوسری طرف تاجر بھی سامان منگوانے سے کترارہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سرحد کے علاوہ راستے میں طالبان اور افغان فورسز میں جھڑپیں چل رہیں۔ تاجروں کو خطرہ رہتا ہے کہ کہیں ان کی گاڑیاں ان حملوں کا نشانہ نہ بن جائیں۔
افغانستان کے عوام کا زیادہ انحصار تیل اور گیس پر زیادہ ہے جو وسطی ایشائی ممالک اور ایران سے آتی ہیں دوسری سب سے زیادہ ترسیل آٹے کی ہوتی ہے۔ کیوں کہ افغانستان کی اپنی کوئی فلور ملیں نہیں ہیں۔
نجییب نے بتایا کہ اشیائے ضروریہ کے علاوہ کپڑا بھی باہر سے آتا ہے۔ افغانستان میں کپڑے کی فیکٹریاں نہیں ہیں۔ پہلے سیمنٹ جو ترقیاتی کاموں میں استعمال ہوتا تھا۔ وہ اب بدامنی کے باعث کم آرہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سرحدوں پر طالبان کے قبضے سے کابل حکومت کو دھچکا لگا ہے۔ نجیب آزاد سمجھتے ہیں کہ اس سے افغان حکومت کو مفلوج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے ذرائع آمدن میں کمی ہورہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق: افغان حکومت کو درآمد اور برآمد کی مد میں تقریباً 20 ملین ڈالر کی آمدنی ہوتی تھی۔
نجیب کے بقول: جہاں افغانستان کو اشیائے ضروریہ کی ہمسایہ ممالک سے ترسیل ہوتی تھی وہاں یہاں سے تازہ پھل اور خشک میوہ جات کی بھی بڑی تعداد باہر بھیجی جاتی تھی۔ کیوں کہ افغانستان دنیا کے چند ایک ممالک میں شامل ہے جہاں تازہ پھل اور خشک میوہ جات بڑی تعداد میں پیدا ہوتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملک کی تجارت میں تقریباً پچاس فیصد کمی آگئی ہے۔ جو پہلے دو سےتین ملین ڈالر کا کاروبار ہوتا تھا وہ اب سو ملین ڈالر تک رہ گیا ہے۔
دوسری جانب معروف تاجر اورفیڈریشن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور چمن چیمبر آف کامرس کے سابق صدردارو خان اچکزئی سمجھتے ہیں کہ سرحد پر کوئی بھی اگر امن ہوگا تو تجارت کو فروغ ملے گا۔
دارو خان اچکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان تجارت کا مرکز ہے، یہاں سے سامان کی دو ممالک سے گزرنے کے بعد پوری دنیا میں ترسیل ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اس وقت ہاف ملین ہے۔ جس میں دس ملین ڈالر تک گنجائش موجود ہے۔
دارو کے مطابق 2013-14 میں یہ تجارتی حجم تین ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا لیکن یہاں کی تجارت ہمیشہ سیاست کی نظر ہوتی رہی ہے۔
طالبان کے سرحدوں پر قبضے کے حوالے داروخان کا کہنا تھا کہ تجارت میں سب سے اہم چیز امن ہے اور افغانستان میں امن ہوگا تو تجارت کو فروغ ملے گا۔ سرحد پر کوئی بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی غیرقانونی تجارت کی حمایت نہیں کی بلکہ ہمارا مطالبہ رہا ہے کہ اسے قانونی بنایاجائے۔ چمن سے افغانستان کے سرحدی علاقے ویش منڈی میں کاروبار کیا جاتا ہے جہاں سے لوگ پیدل آتے جاتے سامان لاتے ہیں اس کاروبار سے سینکڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
دارو خان نے بتایا کہ ویش منڈی سے کاروبار نہ تو غیر قانونی ہے نہ ہی اس پر پابندی ہونی چاہیے۔
ادھر تجزیہ کار نجیب آزاد سمجھتے ہیں کہ طالبان کی حکمت عملی تو کابل حکومت کو مفلوج کرنے کی ہے تاہم انہیں نہیں لگتا کہ وہ زیادہ دیر تک قبضے برقرار رکھ پائیں گے۔ افغان حکومت کی حکمت عملی بن رہی ہے کہ سرحدوں پر ان کا قبضہ دوبارہ ہوجائے۔