تیونس کے سبزی فروش نوجوان بوعزیزی نے خود کو آگ لگا کر جس طرح موت کو گلے لگایا اس سے عرب دنیا میں بیداری کی صورت میں بہار عرب کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کا آخری صفحہ حال ہی میں تیونس کے صدر قیس سعید نے اپنے انقلاب مخالف اقدامات کی شکل میں رقم کر دیا ہے۔
قیس سعید، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی زندگی میں رچائے جانے والے ’ڈراموں‘ سے نہایت متاثر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صدارت کا منصب سنبھالتے ہی اس نظام کی خرابیاں گنوانا شروع کردیں جس نے انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا۔
انہوں نے پارلیمنٹ، پارلیمنٹیرنز کی جی بھر کر توہین کی۔ جس پارلیمانی نظام پر تیونس میں جمہوری نظام کی عمارت کھڑی تھی صدر قیس نے’عوام کا نام‘ استعمال کر کے اسے بے وقعت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قیس سعید نے اپنے توہین آمیز حملوں میں سیاسی جماعتوں، ذرائع ابلاغ اور ریاستی اداروں کو خصوصی ہدف بنایا تاکہ انہیں حکومت کے دوران من مانی سے روکنے والا کوئی طاقتور ادارہ باقی نہ رہے اور وہ سنجی گلیوں میں مرزا یار کی طرح کھل کھیلیں۔
تیونس کے مجنوں ’قیس‘ نے اپنی اس مہم جوئی میں دستور کو بھی نہ بخشا اور زیادہ سے زیادہ اختیارات سمیٹنے کی خاطر اس میں ’تبدیلی‘ کا راگ آلاپنا شروع کر دیا۔ حد تو یہ ہے کہ انہوں نے ملک کی دستوری عدالت کی تشکیل کی راہ میں بھی روڑے اٹکانا شروع کر دیے۔
رواں برس [اپریل میں] صدر قیس نے قاہرہ کا دورہ کیا، جس کے دوران انہوں نے تیونس کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے لیے مصر میں آمریت کی خوبیاں گنوائیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ’پسندیدہ آمر‘ صدر عبدالفتاح السیسی کے حق میں تعریف کے ڈونگرے برسائے۔
بالآخر قیس سعید اپنے ملک میں وہ سب کرنے میں کامیاب ہو گئے جو ڈونلڈ ٹرمپ 6 جنوری 2021 کو امریکہ میں نہ کروا سکے۔ امریکی انتخاب کے بعد ٹرمپ نے ’عوام‘ کا نام استعمال کر کے اپنے پیروکاروں کو کانگریس پر حملے کے لیے اکسایا۔
قیس سعید نے ملک گیر مظاہروں اور عوامی غضب کو ڈھال بنا کر تیونسی پارلیمنٹ منجمد کر دی، پارلیمنٹرینز کو آئینی استحقاق سے محروم کیا اور اس طرح اپنے دوست ٹرمپ سے دو قدم آگے نکل گئے۔ صدر نے وزیر اعظم ہشام مشیشی کو چلتا کر کے ’عارضی طور‘ پر حکومتی اختیارات پر قبضہ جما لیا۔
تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ عوامی جذبات کی لہروں پر سوار حکمران جن اختیارات کو ’عارضی‘ طور پر سنبھالتے ہیں وہ دراصل انہیں غیرمعینہ مدت کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ کاروبار حکومت کو اپنی مرضی ومنشا کے مطابق چلا سکیں۔
تیونس میں گذشتہ ہفتے ہونے والی پیش رفت باعث حیرت نہیں کیونکہ خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے سیاسی پنڈتوں کے بقول اس کی تیاری ایک مدت سے جاری تھی۔
یادش بخیر! انقلاب مخالف قوتوں نے مصر میں اخوان المسلمون کے مرکزی دفتر کو آگ لگائی، اس کی قیادت پر حملوں سمیت ان کی نجی جائیدادیں تاراج کیں۔ انقلاب مخالف حلقے ان منظم کارروائیوں کو ناراض عوام کا ردعمل قرار دے کر اپنے جرائم پر پردہ پوشی کرتے رہے۔
اسی طرز عمل کا مظاہرہ تیونس میں دیکھنے کو ملتا ہے جب النہضہ پارٹی کے صدر دفتر کو آگ لگائی گئی اور پھر تنظیم کے اہم قائدین کو منتخب ایوان کے اندر اور باہر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ سب کارروائیاں تیونس کو بازیچہ اطفال بنانے کی کوشش منظم تھی۔
تیونس میں رونما ہونے والا سنگین حادثہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ تیونس کے ایوان صدر میں بیٹھے قیس سعید، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح رسوائے زمانہ کاروباری شخصیت نہیں تھے۔ وہ قانون کے پروفیسر رہے، جنہیں اپنے اقدامات کے جائز یا ناجائز ہونے کا بخوبی اندازہ ہے۔
قانون کے طلبہ کو دستور کی تعلیم دینے والے پروفیسر قیس تیونس کی فوج کو تابع بنانے کے لیے بار بار ملکی دستور کے آرٹیکل 77 کا حوالہ دیتے رہے۔ منتخب وزیر اعظم کے خلاف ’بغاوت‘ کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے جناب قیس آئین کے آرٹیکل 80 کا ذکر بھی شد ومد سے کرتے ہیں۔
پروفیسر قیس ’بغاوت‘ کو قانونی اقدام ثابت کرنے کی خو میں یہ بات بھول گئے کہ آئین کے دو متضاد آرٹیکلز کا حوالہ دے کر وہ ہمالیہ سے بڑی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے دستور کا ماہر یا قانون دان ہونا ضروری نہیں، معمولی سمجھ بوجھ والا سیاسی ورکر بھی صدر قیس کی حماقت پر ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔
تیونس میں صدر قیس کی اعلان کردہ ’ایمرجنسی‘ کے لیے انہیں سربراہ حکومت اور پارلیمنٹ کے ساتھ رابطے درکار تھے، لیکن طاقت کے نشے میں مست تیونس کے مجنون نے ’ہنگامی اقدام‘ کو حکومت اور پارلیمنٹ ہی کے خلاف استعمال کر ڈالا۔ انہوں ایک مرتبہ پھر’عوامی مفاد‘ کو ڈھال بنا کر تیونس میں تقسیم اختیارات کے دستوری فارمولے کو دیوار سے دے مارا۔
عوامی حمایت کے زعم میں ہر قانونی اور غیر قانونی اقدام کرنے والوں کا تعلق کسی ایک پیشہ، قوم اور مذہب سے نہیں ہوتا، ایسے کوتاہ اندیش دنیا کے ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں۔ اسی حمایت کے زعم میں حالیہ چند برسوں کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے دنیا کی کئی نوزائیدہ اور قدیم جمہوریتوں کا خون کیا۔
عوامیت پسندی کے خمار میں ایسے کئی رہنماؤں نے ’اسٹیس کو‘ کے خلاف عوامی غیظ وغضب کو اختیارات کے ارتکاز کے لیے بطور ڈھال استعمال کیا اور دستور کے مطابق اختیارات کی تقسیم کو بے وقعت بنایا۔
افسوس صد افسوس! مشہور بہار عرب کا پہلا سٹیشن [تیونس] بھی خود کو اس رنگ میں رنگنے سے نہ بچا سکا۔ ایک دہائی پہلے تیونس میں آنے والے پرامن اور کامیاب انقلاب کے باوجود عوام ملک میں گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران اور سیاسی تعطل کی وجہ سے دل برداشتہ ہیں۔
گیارہ ملین نفوس پر مشتمل اس ملک میں کرونا وائرس کی وبا نے جو تباہی مچائی اس کے بعد حالیہ چند ہفتوں کے دوران عوامی مایوسی نے غصے کا روپ دھار لیا۔ تیونس میں اب تک کرونا وائرس میں 17 ہزار اموات ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔
بگڑتی ہوئی صورت حال کے باوجود تیونس کے سیاست دان بشمول صدر باہمی اختلافات کی خلیج کم کرنے میں ناکام رہے۔ وہ حکومتی امور کی انجام دہی اور عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ناکام رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بدقسمتی سے تیونس میں اختیارات کا کھیل سیاسی رسہ کشی کی شکل اختیار کر چکا ہے جس میں عوامی معاملات میں بہتری کی بجائے ذاتی انا کی تسکین سیاست دانوں کا ہدف اولین بن چکی ہے۔ ایسے میں تیونس کے عوام غم وغصہ دکھانے میں حق بجانب ہیں۔
اپنی پوری زندگی میں مجھے کوئی ایسی مثال نہیں دیکھنے کو نہیں ملتی کہ جس میں کئی دہائیوں پر محیط جابرانہ آمریت کے بعد فرد واحد کسی ملک کے دیرینہ مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوا ہو۔ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ’قومی نجات دہندہ‘ ایسی باتیں صرف نعرے ہوتے ہیں۔ یہ نعرے لگتے رہے، لیکن ان سے تیونس کے عوام کے دلدر دور نہ ہو سکے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عوامی حمایت کے دعویدار قیادت اکھاڑ پچھاڑ، تباہی اور مذمت کرنے میں تو یقینا ید طولیٰ رکھتی ہے، لیکن ایسے لوگ تعمیر کے کاموں کے لیے درکار تعاون اور رابطوں کے میدان میں بری طرح ناکام رہتے ہیں۔
قیس سعید نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک کو تلپٹ کرنے اور مذمتی بیانات دینے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ وہ تیونس کو درپیش مسائل کے حل کی خاطر تاحال کوئی قابل عمل حل تجویز پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح، قیس سعید نے تیونس میں ’کشت وخون‘ روکنے کے لیے جو حل پیش کیے، ان سے ملکی صورت حال مزید مکدر ہوتی گئی۔
تریسٹھ سالہ قیس سعید نے انقلاب تیونس کا مقبول نعرہ ’عوام حکومت [بن علی آمریت] کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ کو اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا۔ اس انقلابی نعرے میں تحریف کرتے ہوئے انہوں نے اس نعرے کو ’صدر حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں‘ بنا ڈالا۔ یہ بات کتنی مضحکہ خیز تھی کہ قیس سعید اسی حکومت کے خاتمے کے خواہاں تھے جس نے انہیں صدارت کے منصب پر فائز کرایا۔
تیونس کے حالات نے ہمیں عوامی مقبولیت اور جمہوریت کے درمیان کشیدگی کی وہ تاریخ یاد کرا دی جب مظلومیت کا عنوان بنی عوامی ناراضی کو بنیاد بنا کر جمہوریت کا خون کیا جاتا رہا۔ دستور، میڈیا اور ریاستی اداروں کی بساط لپیٹ دی جاتی تھی۔
تیونس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح مطلق العنان اقتدار کی راہ میں مزاحم ہر رکاوٹ ختم کرنا چاہتے تھے۔ اس کوشش میں ان کی کامیابی یا ناکامی سے متعلق رائے دنیا قبل از وقت ہے، تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر قیس سعید کے جابرانہ غیر دستوری اقدامات کو کالعدم قرار دلوانے میں تیونس کے عوام اور ان کے دوستوں نے مزید تاخیر کی تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
تیونس میں جمہوریت اگرچہ امریکہ جتنی پرانی نہیں، لیکن تیونسی عوام نے ماضی میں خود کو جس طرح مثبت تبدیلی کا استعارہ ثابت کیا ہے آج بھی وہ پرامن طریقے سے ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔