تیونس کے صدر قیس سعید نے حکومت تحلیل، پارلیمان کو 30 دن کے لیے معطل اور وزیر اعظم کو معزول کر دیا ہے۔ انہوں نے اتوار کی شام فوجی اور سکیورٹی رہنماؤں کے ساتھ ہنگامی اجلاس کے بعد پارلیمنٹ کے اراکین کے استثنیٰ کو بھی منسوخ کر دیا۔
قیس سعید نے اعلان کیا کہ ملکی آئین کے آرٹیکل 80 کو استعمال کرتے ہوئے وہ نئے وزیر اعظم کی مدد سے ملک کے انتظامی اختیارات سنبھال لیں گے۔
ملک کے آئین کے مطابق اقتدار صدر، وزیر اعظم اور پارلیمان کے مابین تقسیم ہے۔
اس اعلان کے بعد لوگ تیونس کے دارالحکومت کی سڑکوں پر نکل آئے، نعرہ بازی اور آتش بازی کی اور قومی ترانہ گاتے رہے۔
دس سال قبل 2011 میں تیونس میں ایک اور انقلاب کا منظر تھا جس نے زین العابدین بن علی کا تختہ الٹتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں ’عرب بہار‘ کے نام نہاد انقلابوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔
صدر قیس سعید نے اتوار کی شام ایک ٹیلی ویژن پیغام میں کہا کہ ’میں کسی کو بھی جو اسلحہ استعمال کرنے اور گولیاں چلانے کے بارے میں سوچے گا اس کا مسلح افواج کی گولیوں سے جواب دوں گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برسوں کے سیاسی بحران، بدعنوانی، حکومتی ناکامیوں اور بڑھتی بے روزگاری نے بہت سارے لوگوں کو عدم اطمینان کا شکار کر دیا ہے۔ کرونا کی وبا کے بعد معاشی دباؤ نے ان لوگوں کے لیے زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ ان لوگوں کی سیاحت کی صنعت معاش کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
اس کے علاوہ کرونا وائرس اور اموات کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ویکسینیشن میں بے ضابطگیوں نے لوگوں کو مشتعل کیا ہے۔
قیس سعید نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’بہت سے لوگوں کو منافقت اور بدعنوانی سے دھوکہ دیا گیا ہے۔‘
قیس سعید کا تقریباً ایک سال سے وزیر اعظم کے ساتھ سیاسی تنازعہ چل رہا ہے۔ وزیر اعظم ہشام موشیشی کئی مہینوں سے کوشش کر رہے تھے کہ وہ ملک کی کچھ معاشی پریشانیوں اور بجٹ خسارے کو دور کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض حاصل کر سکیں۔