خیبر پختونخوا کے علاقوں تخت بھائی اور چارسدہ کے دیہات کی تازہ سبزیاں عرب ممالک اور یورپ میں بھی مشہور ہیں، جہاں مانگ پوری کرنے کے لیے مقامی زمیندار روزانہ کی بنیاد پر دیہات سے سبزیوں کو اکٹھا کر کے ہوائی جہازوں کے ذریعے بھجواتے ہیں۔
ضلع مردان میں تخت بھائی کے گاؤں ثمرباغ کے مقامی کاشتکار اور ایکسپورٹر جہانزیب مہمند اپنے کھیتوں اور دوسرے کاشتکاروں سے تازہ سبزیاں حاصل کرکے مختلف ممالک برآمد کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’میں یہاں چھوٹا کاشتکار ہوں اور عرب ممالک کو بھیجنے کے لیے اپنے کھیتوں میں لوکی، کدو، بھنڈی اور کریلا اگاتا ہوں۔‘
ان کے مطابق انہوں نے ٹھیکے پر بھی کچھ زمین لی ہے اور اس پر بھی سبزی کاشت کرتے ہیں اور دوسرے کاشتکاروں سے بھی خریدتے ہیں جس کو مشرق وسطیٰ اور یورپ بھیج دیتے ہیں۔
جہانزیب مہمند بتاتے ہیں: ’جس سبزی کی اچھی مانگ ہو اور جو سبزی ہمیں سستی ملے وہ خرید لیتے ہیں اور باہر بھیجتے ہیں اور اس کے بدلے ہم پاؤنڈ، ریال اور ڈالر کماتے ہیں۔‘
جہانزیب مہمند نے کہا کہ وہ سبزی کو سعودی عرب کے شہر ریاض، دمام اور جدہ بھیجتے ہیں جبکہ دوسرے عرب ممالک بحرین، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت بھی بھیجتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی سبزیاں یورپ میں جرمنی، ناروے، سویڈن اور برطانوری شہر لندن، مانچسٹر اور برمنگہم بھی جاتی ہیں۔
سبزیوں میں خصوصیت کیا ہے؟
جہانزیب مہمند نے کہا: ’ان علاقوں کی سبزیوں میں مٹھاس اور خوبصورتی ہے۔ زیادہ تر بیرونی ممالک میں ہمارے علاقوں اور ملک کے لوگ خریدتے ہیں کہ یہ ہمارے پاکستان کی سبزی اور پھل ہیں۔‘
ان کے بقول جب وہ سعودی عرب کے شہر ریاض یا دمام جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ لوگ دوکانوں میں پوچھتے ہیں کہ پاکستان سے کیا چیز ہے، تو پاکستانی پہلے پاکستانی سبزی کا پوچھتے ہیں۔
جہانزیب مہمند کہتے ہیں کہ ان کے علاقوں کی سبزیاں خریدنے پنجاب کے ایکسپورٹرز بھی آتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں کریلا، لوکی، کدو، توری بھنڈی سمیت بہت سی سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔ جہانزیب کے مطابق یہ علاقہ پرانی نہر پر ہے اور اس لیے یہاں کی زمین زر خیز ہے۔
انہوں نے کہا کہ سبزی کے علاوہ گنڈیری، شریفہ، پپیتہ اور چیکو بھی عرب ممالک بھیجے جاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں تازہ سبزی اور پھلوں کو وہ زیادہ تر اسلام آباد یا پشاور سے جہاز کے ذریعے بھیجتے ہیں کیونکہ سمندری راستے سے بھیجنے کے لیے ابھی سہولیات نہیں۔
وہ عرب ممالک میں براہ راست عرب ڈیلروں کے ساتھ کام کرتے ہیں، جس میں کبھی کبھی یہ مسئلہ بھی ہوتا ہے کہ وقت پر پیسنے نہیں ملتے۔
جہانزیب کے بقول ان کے خود کے تین چار لاکھ روہے دمام میں پھنیسے ہوئے ہیں۔ ’ہمارے ساتھ ہمارے ملک کا سفارت خانہ کوئی تعاون نہیں کررہا اور بے یارومددگار ہم اپنا کام خود کرتے ہیں۔‘
کیا سبزیوں کی درآمد زیادہ ہوتی ہے؟
وہ بتاتے ہیں کہ پہلے زیادہ ہوا کرتی تھی کیونکہ کرایہ کم تھا۔ ’پہلے سعودی عرب کے لیے 60 یا 65 روپے فی کلو سبزی کا کرایہ تھا اور اب 165روپے فی کلو ہوگیا ہے، تو اتنا منافع تو نہیں ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں بھی سبزیوں پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے دوسرے ممالک کی نسبت ہماری سبزی پھر مہنگی پڑتی ہے جس سے ایکسپورٹ کے کام پر کافی اثر پڑھ گیا۔
سبزی کی برآمداد بڑھانے کے لیے کون سی سہولیات چاہیے؟
جہانزیب مہمند نے کہا کہ اس علاقے میں کاشتکاروں کو کولڈ سٹوریج کی سہولت کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ پشاور،لاہور، کراچی اور گوادرمیں ایکسپورٹ زون ہونا چاہیے جس کے لیے ایکسپورٹرز پیسے بھی دین گے لیکن ایکسپورٹرز کی آسانی کے لیے ان کے کام کے حساب سے قسطوں میں پیسے لیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ کاشتکار کو اسودہ حال کرنے کے لیے برآمداد کو بڑھانا ہوگا جس کے لیے افغانستان کی سرحد جو اکثر بند ہوتی ہے اسے تجارت کے لیے زیادہ کھلی ہونا چاہیے، وہاں سے زیادہ سبزیاں جائیں گی تو زیادہ پیسے بھی آئیں گے۔