کیا ہم نے اورآپ نے کبھی یہ تصور کیا تھا کہ ہم کوئی ایسا بے درد زمانہ بھی دیکھیں گے کہ جب کسی ایک جماعت کے لوگ یک زبان ہو کر کسی نوجوان کی موت کا مذاق اڑائیں گے اور اپنے اس عمل پر شرمندگی بھی محسوس نہیں کریں گے؟
کسی نوجوان کی موت کتنا بڑا المیہ ہوتا ہے اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ جوان موت تو وہ موت ہوتی ہے جس پر خود موت بھی آزردہ ہو جاتی ہے۔
وہ موت جو بے رحمی سے لوگوں کو اپنے حصار میں لیتی ہے اور انہیں اجل کی راہ پر گامزن کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتی۔ وہی موت جب کسی نوجوان کو نشانہ بناتی ہے تو اسے ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچنا پڑتا ہے کہ میں ماں سے اس کا لخت جگر کیوں چھین رہی ہوں اور باپ کی کمر کیوں توڑ رہی ہوں۔
لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے اس زمانے میں ہم اس قدر بے حس ہو گئے کہ ہم نے موت کو بھی سیاست کی نذر کر دیا اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے قبل کلثوم نواز کی وفات پر بھی اسی قسم کا ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔
سوشل میڈیا کو ہمیشہ سے جھوٹ اور بناوٹ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں سب کچھ مصنوعی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ سوشل میڈیا ہی تو ہے جو ہمارے اندر کی گندگی بھی باہر لاتا ہے اور ہمارا باطن سب پر عیاں کر دیتا ہے۔ ہم جو اپنی بہت خوبصورت تصویر سجا کر لوگوں کے ساتھ گفتگو کر رہے ہوتے ہیں یہی سوشل میڈیا ہماری بدصورتی سب پر عیاں کر دیتا ہے۔
چند برس قبل جب محبتیں تصنع کی جانب گامزن ہوئی تھیں تو ہم نے دبے لفظوں میں احتجاج کیا تھا کہ یارو کیا یہ ضروری ہے کہ ہم محبت جیسے حقیقی جذبے کو بھی جذبات سے عاری کر دیں؟ لیکن ہمیں اس سوال کا جواب نہ مل سکا۔ سوال کا جواب تو کیا ملنا تھا اب معلوم ہوتا ہے کہ جیسے موت کا دکھ بھی جذبات سے عاری ہو گیا۔ یہ سوشل میڈیا ہی ہے جہاں استاد اور والدین کا احترام بھی تصنع کی نذرکیا گیا۔ ایک دن ماؤں کے لیے اور دوسرا جب اساتذہ کے احترام کے لیے مختص کیا گیا تو گویا محبت کے بعد احترام بھی مصنوعی ہو گیا۔ پھر امن، محبت ، رواداری، مذہب، سیاست، تصوف غرض یہ کہ سبھی کچھ مصنوعی اور بناوٹی ہوتا چلا گیا۔
پھر حالات کچھ اس نہج پر پہنچے کہ دہشت گردوں نے امن کانفرنسوں کا اہتمام شروع کر دیا اور قاتلوں نے لوگوں کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ کہیں سے حکم ملا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوفی ازم کو فروغ دینا چاہیے۔ بس پھر کیا تھا ممی ڈیڈی لڑکوں نے چولے پہن کر سر وں پر پھندنے والی ٹوپیاں دھریں اورسوشل میڈیا پر دھمال ڈالنے لگے۔ کچھ جعلی صوفی حضرات پبلشرصاحبان نے کتابیں فروخت کرنے کے لیے آرڈر پر تیار کر دیے۔
کبھی کسی نے کہا تھا کہ حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے۔ جس زمانے میں یہ کہا گیا ہو گا ممکن ہے اس دور میں ایسا ہوتا بھی ہو لیکن اب تو بناوٹ کے اصول ہی سکہ رائج الوقت قرار پائے ہیں اور کاغذ کے پھولوں سے خوشبو بھی آنے لگی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارا خیال تھا کہ موت اور دکھ ابھی بے معنی نہیں ہوئے ہوں گے۔ لیکن اب احساس ہوا کہ ہر چیز کی معنویت ختم ہو گئی۔
تعزیت پہلے گھروں میں جا کر یا جنازوں میں شریک ہو کر کی جاتی تھی ٹیلی فون یا خط کے ذریعے مرنے والے کے رشتہ داروں اور دوستوں کو پرسہ دیا جاتا تھا لیکن پھر فیس بک پرلوگ موت کوبھی لائیک کرنے لگے۔ جذبات سے عاری جملے ’آنسوﺅں کی طرح ‘برسنے لگے تو فیس بک کی وال دیوارگریہ قرارپائی۔
اوہ، اوہو، اللہ صبر دے، افسوس، او مائی گاڈ۔۔۔ یہ اور ایسے بہت سے سپاٹ جملے لواحقین کے لیے اذیت کا سامان فراہم کرنے لگے اور ان کے ساتھ ساتھ RIPکی تکرار بھی جاری رہی۔
پھر ایک اور بناوٹ یہ ہوئی کہ مرنے والوں کی تصویریں فیس بک پر لگائی جانے لگیں۔ ادھر کسی کے مرنے کی خبر آتی ہے اور دوسری جانب لوگ اس کے ساتھ اپنی تصاویر فیس بک پر لگا دیتے ہیں۔ اور تو اور میت کے ساتھ سیلفیاں تک رائج ہو گئیں۔
لیکن اس سب کے باوجود کسی کی موت کا تمسخر اڑانا ہم نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ سیاست میں مخالفت کے اور بھی انداز ہوتے ہیں۔ سیاسی اختلاف کو موت پر ختم کر دینے کی روایت بھی اسی معاشرے میں موجود رہی۔ دکھ کے لمحوں میں اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پرسہ دینے کا عمل بھی ہم نے ہمیشہ دیکھا۔ لیکن ہم اتنے بدزبان کیوں ہو گئے اور کیا یہ سب کچھ ایک ہی دن میں ہوا؟
اس پر غور کرنا تو ماہرین کا کام ہے، ہمیں تو صرف ایک سوال کا جواب نہیں مل رہا۔ سوال یہ ہے کہ مخالفین کا تو جو طرزعمل تھا وہ واقعی افسوسناک ہے لیکن کائرہ صاحب کے ساتھ ان کی اپنی پارٹی نے کیا کیا۔ کیا بلاول بھٹو اسامہ قمر کی قل خوانی والے دن ہونے والی افطارپارٹی کو دو چار روز کے لیے ملتوی نہیں کر سکتے تھے یا افطاری کی تاریخ تبدیل کرنا بھی ان کے اختیارمیں نہیں تھا؟