ابتدائی تجربات سے پتہ لگایا گیا ہے کہ ڈیلٹا وائرس سے متاثرہ ایسے افراد بھی اسے آسانی سے پھیلا سکتے ہیں جنہوں نے پہلے کرونا کی حفاظتی ویکسین لگوائی ہوئی ہو۔
پبلک ہیلتھ انگلینڈ ( پی ایچ ای ) کی نئی تحقیق کے مطابق اگرچہ کوویڈ ویکسین کسی فرد کو ڈیلٹا وائرس سے متاثر ہونے کے مجموعی خطرے کو کم کرتی دکھائی دیتی ہے، اگرچہ متاثرہ افراد میں ویکسین شدہ اور ویکسین نہ لگوائے ہوئے لوگوں کے درمیان وائرل لوڈ میں فرق محدود ہی دکھائی دیتا ہے۔
پی ایچ ای کے مطابق ’اس سے لوگوں کے ڈیلٹا کیرئیر ہونے کے خدشات ہوسکتے ہیں ، چاہے انہیں ویکسین لگائی گئی ہو یا نہیں۔‘
کرونا ویکسین کی (خاص طور پر دو خوراکوں) کے بعد ڈیلٹا وائرس کی شدت اور اس کی وجہ سے موت کے خلاف اچھا تحفظ فراہم ہونے کا ڈیٹا موجود ہے لیکن اس بارے میں کم اعداد و شمار دستیاب ہیں کہ کیا ویکسین شدہ لوگ اب بھی اسے دوسروں تک منتقل کر سکتے ہیں۔
پی ایچ ای کے مطابق ’کچھ ابتدائی نتائج یہ بتاتے ہیں کہ ان لوگوں میں وائرس کی سطح جو ڈیلٹا سے متاثر ہوچکے ہیں اور پہلے سے ویکسین شدہ ہیں، ان لوگوں کے برابر پائی گئی جنہیں ویکسین نہیں لگی تھی۔‘
تاہم ، پی ایچ ای کے مطابق اسے ’ابتدائی تحقیقاتی تجزیے‘ کا نام دیا گیا اور ادارے کا اصرار ہے کہ اس بارے میں ’مزید ٹارگٹڈ اسٹڈیز‘ کی ضرورت ہے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ ویکسین شدہ لوگ کس حد تک دوسروں میں ڈیلٹا کو پھیلا سکتے ہیں۔
یہ نتائج امریکی مرکز برائے تدارک بیماری کی بازگشت محسوس ہوتے ہیں جنہوں نے پچھلے ہفتے انہی خدشات کا اظہار کیا تھا کہ ڈیلٹا سے متاثرہ افراد دوسری قسموں کے برعکس کرونا کو آسانی سے دوسروں تک منتقل کر سکتے ہیں۔
پی ایچ ای نے مزید کہا کہ ڈیلٹا ویرینٹ ، جو کہ ہندوستان سے شروع ہوا ہے برطانیہ میں غالب ہے اور تقریبا ننانوے فیصد کیس اب اسی کے ہیں۔
دوسری جانب امپیریل کالج لندن میں تجرباتی میڈیسن کے پروفیسر پیٹر اوپن شا نے کہا کہ پی ایچ ای کے تجزیے کے نتائج ’مایوس کن‘ ہیں۔
تاہم انہوں نے ایک دوسری تحقیق کا حوالہ دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وائرس زیادہ تر ویکسین شدہ افراد میں تیزی سے غائب بھی ہو جاتا ہے، تو ’ڈیلٹا ویکسین شدہ لوگوں سے آگے منتقل ہونے کے امکانات کم ہیں۔‘
’ویکسین ڈیلٹا کے خلاف کچھ دیگر اقسام کے مقابلے میں کم موثر ہے ، لیکن دنیا بھر میں اس سے بھی زیادہ خطرناک اقسام موجود ہیں۔ ہم ان تبدیلیوں پر بہت گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ، لیکن فی الحال آپ کو ویکسین کی ڈبل ڈوز لگا کر بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔‘
ریڈنگ یونیورسٹی کے مائیکرو بائیولوجی پروفیسر ڈاکٹر سائمن کلارک نے سکائی نیوز کو بتایا کہ یہ مطالعہ ایک اہم تجزیہ ہے۔ اگر ویکسینیشن ’صرف 50 فیصد تک ٹرانسمیشن کو روکتی ہے تو پوری آبادی کو 100 فیصد ویکسین دینے کے باوجود بھی اس خطرے سے نجات ممکن نہیں ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’حتمی جواب‘ تلاش کرنے کے لیے مزید مطالعات کی ضرورت ہے۔
دیگر ماہرین نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ ویکسین شدہ لوگوں کو دوبارہ متاثر کرنے کی ڈیلٹا صلاحیت کے پیش نظر دنیا کبھی بھی اس وائرس کے خلاف ہرڈ امیونٹی حاصل نہیں کر سکے گی۔
یونیورسٹی آف ایسٹ میں میڈیسن کے پروفیسر پال ہنٹر کے مطابق ’ویکسین انفیکشن کی شدت کو نمایاں طور پر کم کرتی ہے، ہسپتال میں داخل ہونے کی نوبت نہیں آتی اور موت کے منہ میں جانے سے بچاتی ہے، یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دنیا پر کوویڈ کے اثرات وقت کے ساتھ ختم ہوجائیں۔‘
’کرونا ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں ہے، یہ نزلہ زکام ہی کے وائرس کی ایک قسم ہے۔‘ گزشتہ ماہ انہوں نے یہ بیان دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ایچ ای کے مطابق 19 جولائی سے ہسپتال میں داخل ہونے والے تصدیق شدہ ڈیلٹا کیسز میں سے 55.1 فیصد کو ویکسین نہیں لگی تھی جب کہ 34.9 فیصد کو کرونا ویکسین کے دونوں ٹیکے لگے ہوئے تھے۔
تقریبا 75 فیصد برطانوی آبادی کو ویکسین کی دو خوراکیں مل چکی ہیں۔ پی ایچ ای کے مطابق ’جیسے جیسے زیادہ آبادی کو ویکسین دی جاتی ہے، ہم ہسپتالوں میں کرونا کی شدت کم ہوتی دیکھیں گے۔‘
لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے فارماکوپیڈیمولوجی پروفیسر سٹیفن ایونز نے کہا کہ ہسپتالوں میں تھوڑے بہت ویکسین شدہ لوگوں کا کرونا سے متاثر ہو کے پہنچ جانا اس بات کی نشاندہی نہیں کرتی کہ یہ کام ہی نہیں کرتی، صرف اتنا ہے کہ ویکسین سو فیصد موثر نہیں ہے۔‘
پی ایچ ای نے ایک اور بیان میں کہا کہ کرونا کی ایک دیگر قسم ، جسے بی.1.621 کے نام سے جانا جاتا ہے ، جو پہلے کولمبیا میں پائی گئی، اس قسم کے مریضوں میں کوویڈ ویکسین یا پچھلے کرونا انفیکشن سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل کو ختم کرنے کے آثار دیکھے گئے تھے۔
پی ایچ ای نے کرونا کی اس قسم کو ’زیر تفتیش‘ کہا ہے لیکن اسے ’تشویشناک‘ قرار نہیں دیا۔ اگر اس قسم کو بھی تشویشناک قرار دیا گیا تو ادارے کی طرف سے اس کے خلاف بھی مضبوط پالیسی ردعمل متحرک ہو سکتا ہے۔
’ابتدائی لیبارٹری شواہد موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ ویکسینیشن یا پچھلا کرونا انفیکشن (B.1.621) کے حملے کو روکنے میں خاص مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اور لندن میں ایسے سینتیس کیس موجود ہیں۔‘
تاہم، یہ ڈیٹا بہت محدود ہے اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس بات کا فی الوقت کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس کرونا قسم کو غالب ڈیلٹا ویرینٹ سے زیادہ قابل منتقلی قرار دیا جائے۔
© The Independent