کیا ملک میں قبل از وقت انتخاب ہونے جا رہے ہیں، کیا وزیراعظم وقت سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کر کے قبل از وقت الیکشن کرا سکتے ہیں؟
ان سوالوں کے اٹھنے کی وجہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے جلد انتخابات کے حوالے سے اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ کچھ دنوں پہلے بلاول بھٹو نے جلد انتخابات کا دعویٰ کیا تھا اور آج ایک مرتبہ پھر بلاول بھٹو نے کسی بھی وقت نہ صرف الیکشن ہونے کا عندیہ دیا بلکہ اس مرتبہ تو اگلی حکومت بھی بنانے کا دعویٰ کر دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ بلاول کا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر الیکشن میں غیر متوقع طور پر پی پی پی کے دوسرے نمبر پر آنے کے بعد اعتماد ہے جو ان کو اگلے بعد اگلے عام انتخابات میں فتح کا اعتماد دے گیا ہے یا پھر پیپلز پارٹی کی اگلی حکومت بنانے کے دعوے کے پیچھے کسی جانب سے کوئی یقین دہانی ہے۔
پنجاب میں پیپلزپارٹی کہیں نظر نہیں آتی، بلوچستان میں ان الیکٹیبلز کا سہارا لیا جا رہا ہے جو ن لیگ چھوڑ کر کسی سیاسی پلیٹ فارم کے سہارے کے انتظار میں تھے۔
ایسے میں بلاول بھٹو کا عام انتخاب جیتنے کا دعویٰ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کے سوا کچھ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ایک طرف پیپلز پارٹی عام انتخابات کی تیاری کر رہی ہے تو دوسری جانب ن لیگ سے اپنے پارٹی بیانیے کی کنفیوژن ہی دور نہیں کر پا رہی۔
پہلے جس پی ڈی ایم کی باگ ڈور مریم نواز نہیں بلکہ ن لیگ کے صدر شہباز شریف سنبھالتے ہوئے نظرآ رہے ہیں۔ آج شہباز شریف نے کل پی ڈی ایم کے ہونے والے اجلاس سے متعلق اپنے پارٹی قائد اور بڑے بھائی نواز شریف سے مشاورت کی۔
دونوں بھائیوں میں حکومت مخالف تحریک تیز کرنے اور پی ڈی ایم کو متحرک کرنے پر اتفاق ہوا اور نواز شریف نے شہباز شریف کو حکومت کے خلاف پارٹی سطح پر بھی لیگی رہنمائوں کو متحرک کرنے کی ہدایت کی ہے۔
یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ وہی شہبازشریف ہیں جو ابھی چند دنوں پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ پی ڈی ایم کے بننے اور ٹوٹنے تک ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے پہلے ان ہی کی بھتیجی اور ن لیگ کے نائب صدر مریم نواز نے بھی 24 مئی کو شہباز شریف کی طرف سے اپوزیشن رہنماؤں کے لیے عشائیے سے متعلق کہا تھا کہ یہ اپوزیشن لیڈر کی دعوت تھی نہ کہ پی ڈی ایم کا ڈنر۔
مگر آج شاید وقت بدل گیا ہے اور شاید ن لیگ کا بیان یہ بھی بدل رہا ہے کیونکہ کل پی ڈی ایم اجلاس کے لیے مریم نواز نہیں بلکہ شہبازشریف متحرک ہیں۔ اس تمام پیش رفت کی ٹائمنگ بھی بہت اہم اور دلچسپ ہے۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے کہ جب ن لیگ کے اندر بیانیے کی کنفیوژن چل رہی ہے اور پارٹی رہنما اپنے قائد نواز شریف کی طرف اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے دیکھ رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پی پی کلیئر مائنڈ کے ساتھ آگے بڑھ جائے گی اور اقتدار کے کیک کا بڑا حصہ لینے میں کامیاب ہو گی یا نہیں، اور کیا ن لیگ میں شہباز شریف مفاہمتی پالیسی کو انتخابی کامیابی میں تبدیل کرانے میں کامیاب ہو پائیں گے۔
مگر اس کے لیے ان کو جلدی کرنا ہو گی، کیونکہ پیپلزپارٹی تو الیکشن موڈ میں آ چکی ہے۔ ن لیگ اس موڈ میں جلدی نہ آئی تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے انتخابات کا نتیجہ سامنے ہے، جو ن لیگ کا موڈ اگلے پانچ سال کے لیے خراب کر سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔