ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی نے بدھ کو اپنی کابینہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی اور جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے عالمی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کے دوران ایک قدامت پسند کو اپنا اعلیٰ ترین سفارت کار نامزد کیا ہے۔
حکومت کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کی جانے والی ایک فہرست میں صرف مردوں کی کابینہ میں قدامت پسند وزرا کی اکثریت دکھائی دیتی ہے جس کا باضابطہ اعلان ہفتہ کو پارلیمنٹ کرے گی۔
اصدر رئیسی نے گذشتہ ہفتے حسن روحانی کی جگہ لی ہے جو ایک اعتدال پسند صدر تھے اور ان کے دو ادوار صدارت کے دوران نمایاں کامیابی 2015 کا معاہدہ تھا جس نے ایران کو اس کے جوہری پروگرام پر پابندی کے بدلے عالمی پابندیوں سے چھٹکارہ دلایا تھا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تین سال بعد اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہوگئے تھے اور ایران پر کچل دینے والی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
وزارت خارجہ کی قیادت کے لیے نامزد کیے گئے 56 سالہ حسین امیر عبداللہین کو سرکاری ٹیلی ویژن نے ’مزاحمتی محور کا معزز سفارتکار‘ قرار دیا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ نے انہیں لبنان کی حزب اللہ سمیت علاقائی اتحادیوں سے قریبی تعلقات رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ شخصیت کے طور پر بیان کیا ہے۔ وہ اکثر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی ویب سائٹ کے لیے خارجہ پالیسی کے مضامین قلمبند کرتے رہتے ہیں۔
عراق میں سکیورٹی کی صورت حال کے بارے میں بغداد میں 2007 کی مشترکہ کمیٹی میں امیر عبداللہین امریکی حکام کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایران کے رابطہ کار تھے۔
انہوں نے 2018 میں بغداد مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ٹویٹ کیا تھا: ’امریکہ کے ساتھ بات چیت کرنا کبھی ممنوع نہیں تھا لیکن مسئلہ امریکہ کی غنڈہ گردی والا رویہ ہے۔‘
رئیسی نے سابق نائب وزیر تیل اور قومی گیس کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر جواد اوجی کو بھی اپنا وزیر تیل نامزد کیا۔
سابق وزیر تیل ایڈمرل رستم قاسمی جو انقلابی گارڈز ایلیٹ القدس فورس کے سربراہ کے اقتصادی امور کے معاون اور صدارتی امیدوار تھے اب وزیر ٹرانسپورٹ نامزد کیے گئے ہیں۔
داخلہ اور سیاحت کی وزارتوں کے لیے رئیسی کا انتخاب بالترتیب امیر واحدی اور عزت اللہ زرغامی ہیں جو پاسداران انقلاب کے ممبر ہیں اور امریکی پابندیوں کے شکار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اپریل اور جون کے درمیان ویانا میں جوہری مذاکرات کے چھ دور ہوچکے ہیں۔
آخری راؤنڈ 20 جون کو اختتام پذیر ہوا جس میں اگلے راؤنڈ کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔ ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے مذاکرات دوبارہ شروع نہیں ہوں گے۔
خلیجی امور کے ایک تجربہ کار امیر عبداللہین نے 2016 میں حال ہی میں سبکدوش ہونے والے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے ماتحت 2011 میں عرب اور افریقی امور کے نائب کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں۔ اس اقدام پر روحانی کے قدامت پسند مخالفین نے شدید تنقید کی تھی۔
خبر رساں ادارے اسنا کے مطابق امیر عبداللہین نے بعد میں عمان میں ایران کے سفیر بننے کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ پارلیمنٹ کے آخری دو اسپیکرز کے لیے بین الاقوامی امور کے معاون خصوصی کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔