اویغوروں کے لیے دبئی میں چین کی خفیہ جیل کا انکشاف

اگرچہ چین میں ’بلیک سائٹس‘ (خفیہ جیلیں) عام ہیں لیکن 26 سالہ چینی خاتون وو ہوان کی کہانی ماہرین کے علم میں آنے والی واحد گواہی ہے کہ بیجنگ نے کسی دوسرے ملک میں کوئی خفیہ حراستی مرکز قائم کر رکھا ہے۔

27 دسمبر 2019 کی اس تصویر میں جرمنی کے دارالحکومت برلن میں  چین کی حکومت کے خلاف مظاہرے میں شریک افراد نے  چینی اقلیتی کمیونٹی  اویغوروں کے حق میں بینرز اٹھا رکھے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

ایک نوجوان چینی خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں کم از کم دو اویغوروں کے ساتھ دبئی میں واقع خفیہ چینی حراستی مرکز میں آٹھ دن تک رکھا گیا۔ چینی خاتون کا یہ بیان اس بات کا پہلا ثبوت ہوسکتا ہے کہ چین نے اپنی سرحدوں سے باہر نام نہاد ’خفیہ حراستی مرکز‘ قائم کر رکھا ہے۔

26سالہ وو ہوان، چین کے حوالے کیے جانے  سے بچنے کے لیے بھاگ رہی تھیں کیونکہ ان کے منگیتر کو چین میں حکومت کا مخالف سمجھا جاتا ہے۔ وو نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ انہیں دبئی کے ایک ہوٹل سے اغوا کیا گیا اور چینی حکام نے انہیں ایک ایسی کوٹھی میں بند کر دیا، جسے جیل میں تبدیل کردیا گیا تھا، جہاں انہوں نے دو دوسرے قیدیوں کو دیکھا یا ان کی آواز سنی جو اویغور تھے۔

چینی خاتون کا کہنا تھا کہ ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور انہیں چینی زبان میں دھمکی دی گئی۔ انہیں ان قانونی دستاویزات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جن میں ان کے منگیتر پر انہیں ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ بالآخر انہیں آٹھ جون کو رہا کر دیا گیا اور اب وہ نیدرلینڈز میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اگرچہ چین میں ’بلیک سائٹس‘ (خفیہ جیلیں) عام ہیں لیکن 26 سالہ چینی خاتون وو ہوان کی کہانی ماہرین کے علم میں آنے والی واحد گواہی ہے کہ بیجنگ نے کسی دوسرے ملک میں کوئی خفیہ حراستی مرکز قائم کر رکھا ہے۔ اس طرح کے مرکز سے اس بات کی عکاسی ہوگی کہ چین اپنے بین الاقوامی اثر و رسوخ کو کس طرح بیرون ملک چینی شہریوں کو حراست میں لینے یا انہیں واپس لانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ چاہے وہ شہری سیاسی مخالفین ہوں، بدعنوانی کے ملزم ہوں یا اویغوروں جیسی نسلی اقلیتیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس آزادانہ طور پر وو ہوان کے بیان کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکا اور نہ ہی چینی خاتون خفیہ مقام کی صحیح جگہ کی شناخت کرسکیں۔ تاہم صحافیوں نے ان کے بیان کی تصدیق کرنے والے ثبوت دیکھے اور سنے ہیں، جن میں ان کے پاسپورٹ پر لگی مہریں، ایک چینی عہدے دار کے فون کی ریکارڈنگ، جو ان سے سوال پوچھ رہے تھے اور تحریری پیغامات شامل ہیں جو انہوں نے جیل سے اس پادری کو بھیجے تھے، جو ان کے منگیتر کی مدد کر رہے تھے۔

دوسری جانب چینی وزارت خارجہ نے خاتون کی کہانی کی تردید کی ہے۔ وزارت کے ترجمان ہوا چن ینگ نے پیر کو کہا: ’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ خاتون نے جس صورت حال کے بارے میں بات کی وہ درست نہیں ہے۔‘ دبئی میں چینی قونصل خانے نے تبصرے کے لیے کی گئی متعدد درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ دبئی پولیس، میڈیا آفس اور متحدہ عرب امارات کی امور خارجہ اور عالمی تعاون کی وزارت نے بھی اس سلسلے میں کی گئی متعدد فون کالز اور درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلیک سائٹس ایسی خفیہ جیلیں ہیں جہاں عام طور پر قیدیوں پر جرم کا الزام نہیں لگایا جاتا اور ان کا کوئی قانونی سہارا نہیں ہوتا۔ ان کی ضمانت پر رہائی نہیں ہوتی اور نہ ہی عدالت ان کے بارے میں کوئی حکم جاری کرتی ہے۔ چین میں بہت سے خفیہ مقامات کو مقامی حکومتوں کے خلاف شکایت کرنے والے افراد کو روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مقامات اکثر ہوٹل کے کمروں اور گیسٹ ہاؤسز کی شکل میں ہوتے ہیں۔

تائیوان کی اکیڈیمیا سینیکا کی اسسٹنٹ پروفیسر یوجی چن نے کہا ہے کہ انہوں نے دبئی میں چینی خفیہ جیل کے بارے میں نہیں سنا۔ کسی دوسرے ملک میں ایسی سہولت خلاف معمول ہوگی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا مخصوص شہریوں کو واپس لانے کے لیے کی جانے والی ہرممکن کوشش کے مطابق ہوگا۔ ان کوششوں میں سرکاری طریقہ کار جیسا کہ حوالگی کے معاہدوں پر دستخط کرنا یا غیر سرکاری طریقے سے کام کرنا دونوں شامل ہیں، جس کی مثال ویزے کی منسوخی یا ملک میں موجود ان کے خاندان پر دباؤ ڈالنا ہے۔

چن کا کہنا تھا کہ ’حالیہ برسوں تک چین کو بیرون ملک مقیم چینی شہریوں تک رسائی میں دلچسپی نہیں تھی لیکن اب اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

یوجی چن، چین کے عالمی سطح پر قانونی اقدامات پر نظر رکھتی رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اویغوروں کو خاص طور پر ملک بدری یا چین واپسی کا سامنا ہے جہاں حکومت زیادہ تر مسلمان اقلیت کو دہشت گردی کے الزام حتیٰ کہ نماز پڑھنے جیسے نستبتاً بے ضرر عمل کی وجہ سے بھی حراست میں لینے میں مصروف ہے۔

اویغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ نے عام اطلاعات کے ذریعے 89 اویغور مسلمانوں کا سراغ لگایا ہے جنہیں 1997 سے لے کر 2007 تک مختلف ملکوں میں حراست میں لیا گیا یا ملک بدر کیا گیا۔ انسانی حقوق کے اس گروپ کو پتہ چلا ہے یہ تعداد 2014 سے لے کر اب تک بتدریج اضافے کے ساتھ 20 ملکوں میں ایک ہزار 327 تک پہنچ چکی ہے۔

وو ہوان اور ان کے 19 سالہ منگیتر وانگ جنگ یو اویغور نہیں بلکہ ’ہن‘ چینی ہیں جو چین میں لسانی اکثریت ہے۔ وانگ، چین کو اس لیے مطلوب ہیں کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات پوسٹ کیے جن میں 2019 میں ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کی چینی ذرائع ابلاغ میں کوریج  اور بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپ کے دوران چینی اقدامات پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا