’میں امید کرتا ہوں کہ وہ پہلے ہی مر چکے ہوں کیوں کہ اگر وہ زندہ رہے تو یہ زندگی ان کے لیے بدترین اذیت بن جائے گی۔‘
یہ طاہر امین کی غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں ادا کیے گئے الفاظ تھے جن کے خاندان کے بچوں کو کئی سالوں سے چین کے وسیع خود مختار خطے سنگیانگ میں نامعلوم مقامات پر قید میں رکھا گیا ہے۔ اس معلم کے بھائی عادل کو دس سال اور ان کی سوتیلی ماں کو 15 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ان کے تین کزنز کو بھی دس سالوں تک کے لیے ’ری ایجوکیشن‘ کیمپس میں بطور سزا محض اس لیے بھیجا گیا ہے کیوں کہ وہ ملک کے اویغور مسلمانوں کی اجتماعی حراست کے خلاف تحریک چلا رہے تھے۔ اب امریکہ میں سیاسی پناہ لینے والے طاہر نے مجھے بتایا کہ ’اگر میرے خاندان کے افراد ابھی تک زندہ ہیں تو وہ یا تو جیل میں ہوں گے یا پھر ان کیمپوں میں۔‘
جب چن کوانگو سنکیانگ کے لیے کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری بن کر یہاں آئے تو انہوں نے تبت کی طرح یہاں بھی عوام کو دبانے کے لیے اسی ’سماجی انجینئرنگ‘ کی پالیسیوں کو فوراً ہی نافذ کرنا شروع کر دیا جس کے تحت خطہ ایک ’پولیس‘ ریاست میں تبدیل ہو گیا۔
ان کا منترا ہے کہ ہر اس شخص کو حراست میں لے لیا جائے جس کو حراست میں لینے کی ضرورت ہو۔ نام نہاد ’ری ایجوکیشن‘ مراکز میں ’زہر آلود ذہنوں کو صاف کرنے لیے تنہا کرنے‘ کے نام پر اویغور خاندانوں کو الگ کر دیا گیا۔ ایک بار قید میں جانے کے بعد وہ صرف اس وقت رہائی پائیں گے جب نظریاتی طور پر ’صحتمند‘ قرار پائیں گے اور ’اسلام کے مرض‘ سے نجات پا لیں گے۔
چونکہ حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اسی طرح ان کے لاوارث بچوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ والدین کی گرفتاری کے بعد ہزاروں بچوں کو تنہا ان کے گھروں میں چھوڑ دیا گیا۔ جرمن ماہر بشریات ادرین زینز نے سرکاری اعداد و شمار کی تحقیق کرنے کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ ایک دیہی علاقے میں خاص طور پر چار سو سے زیادہ بچوں، جن کے والدین دوہری حراست کا شکار ہوئے، کو اکیلا چھوڑ دیا گیا۔
واشنگٹن ڈی سی میں واقع اویغور ٹائمز ایجنسی کے بانی طاہر امین کا کہنا ہے کہ ان لاوارث بچوں میں سے بہت سارے خاص طور پر سنکیانگ کے سخت ترین سرد موسم کے دوران اپنے گھروں میں بھوک یا ٹھنڈ سے ہلاک ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اویغور بچوں کے پاس کوئی بڑا شخص نہیں بچا جو ان کی دیکھ بھال کرسکتا ہو اور ان کے بہت سے ہان نسل کے چینی پڑوسی ’دہشت گردوں کے بچوں‘ کی مدد کے لیے تیار نہیں ہیں۔
حراست میں لیے جانے کے واقعات بڑھنے کے بعد بہت سے لاوارث بچے کھانے کے لیے سڑکوں پر بھیک مانگ رہے ہیں۔ چنانچہ سنکیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے خطے میں اعلیٰ ترین عہدیدار چن کوانگو نے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت 2020 تک تمام لاوارث بچوں کو ’اداروں‘ میں بند کر دیا جائے۔
نئے یتیم خانوں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے دیے گئے اور عمارتیں بنانے کا جنون شروع ہو گیا۔ صرف سنکیانگ کے جنوبی خطے میں ان مراکز کی تعداد اور حجم میں اضافے سے تعمیراتی لاگت ایک ارب پاؤنڈ تک بڑھ گئی۔ تاہم امین کا کہنا ہے کہ ان مراکز کو ’یتیم خانے‘ کہنے سے ان کی اصل نوعیت کو ڈھانپ دیا گیا۔
انہوں نے ان عمارتوں کو جیلوں کی طرز پر تعمیر کیے جانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گویا چینی حکام کو خوف ہے کہ ایک دن بچوں کے والدین ان کی جان بچائیں گے۔‘ ان نام نہاد ’پروٹیکشن سینٹرز‘ کے ایک کمرے میں 50 سے 60 بچوں کو رکھا جاتا ہے۔ امین کا کہنا ہے کہ یہ یتیم خانے نہیں ہیں بلکہ بچوں کے حراستی کیمپ ہیں۔‘
کوانگو کے زیر کنٹرول ریاست میں دہشت گردی کو ’انسداد دہشت گردی‘ کے اقدام کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جس کا اس قدر گرم جوشی سے اہتمام ثقافتی انقلاب کے بعد سے نہیں دیکھا گیا۔
اس میں یتیم خانوں کو محفوظ بنانے کے لیے ایک موثر پالیسی شامل ہے جس کے تحت یہاں نگرانی کے لیےاسی قسم کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے جس کا عام طور پر سخت سکیورٹی کی حامل جیلوں میں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر زینز کی تحقیق سے صرف ایک ہی خطے کے بچوں کے 40 مراکز میں ایسی ہی سکیورٹی کے ثبوت ملے ہیں۔
ایک کمپنی نے ان کیمپس میں ’تین سطحی دفاعی نظام‘، جس میں بلند دیواریں، ایسی باڑ جن میں بجلی کا کرنٹ دوڑتا ہے اور جدید ترین نگرانی کے آلات انسٹال کیے ہیں جن کے ذریعے ان مقامات پر موجود ہر سرگرمی پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ کوانگو کے خود ساختہ انسداد دہشت گردی اقدام کے آغاز میں ان مراکز میں کچھ اویغور ملازمین کام کرتے تھے لیکن مارچ 2019 میں ان کی بھرتی بند کر دی گئی تب سے یہاں اساتذہ اور سپروائزرز کی اکثریت ہان چینیوں پر مشتمل ہے۔
پچھلے ایک سال میں سنکیانگ کیمپوں میں پرکشش تنخواہوں کے ساتھ ہزاروں تدریسی اسامیوں کا اشتہار دیا گیا تھا۔ ملازمت کی تفصیل میں بہت کم تعلیمی قابلیت کا مطالبہ کیا گیا لیکن دو باتین لازمی قرار دی گئیں ایک یہ کہ ممکنہ درخواست دہندہ کا جھکاؤ کمیونسٹ نظریات کی جانب ہونا چاہیے اور دوسرا وہ روانی سے چینی زبان بول سکتے ہوں۔
ڈاکٹر زینز کا کہنا ہے کہ ان عہدوں کے لیے چھوٹے بچوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم کے حوالے سے کسی پیشہ ورانہ تربیت کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’معیار کی بجائے تعداد‘ کے اصول پر بھرتی کا مقصد عیاں ہے۔ تاہم ان کیمپوں میں خوف کی فضا اور تعلیم کے بجائے نظریات پر زور دینے کی پالیسی کی وجہ سے بعض ہان چینیوں نے دراصل زیادہ تنخواہ کی بجائے ان خصوصیات کی بنا پر درخواست دی ہے۔
اویغور کے شاعر عبدالولی ایوپ کا کہنا ہے کہ ملازمین کو مناسب طریقے سے جانچا نہیں گیا، بس ان کے لیے بچوں کے مراکز میں کام کرنے کی اہلیت ان کا ہان چینی ہونا ہی تھی۔ ایوپ کا کہنا ہے کہ اچھی تنخواہ کے ساتھ ساتھ انہیں مفت رہائش بھی دی جاتی ہے اس کے علاوہ حراست میں لیے گئے اویغور مسلمانوں کا سامان بھی ان کی ملکیت بن جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ان مراکز کے ملازمین کو فوجی طرز پر کیمپ چلانے کی ہدایت دی جاتی ہے اور کوئی بھی ان اساتذہ کی جانچ یا نگرانی نہیں کرتا ہے۔ ان کے یہاں اپنے ہی قانون ہیں۔‘
ایک اویغور خاتون، جو کاشغر کے قریب استاد کی حیثیت سے ملازمت کرنے کے بعد 2019 میں ہالینڈ فرار ہوگئی تھیں، نے ایوپ کو بتایا کہ ان مراکز میں جسمانی اور جنسی زیادتی معمول کی بات ہے۔ انہوں نے ستمبر 2018 کا ایک تکلیف دہ واقعہ سنایا جب ایک اویغور استاد نے ایک نوجوان لڑکی کو سیڑھیوں کے نیچے روتے ہوئے سنا۔ وہ تفتیش کے لیے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک ہان چینی استاد لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کر رہا تھا۔
انہوں نے فوراً مداخلت کرتے ہوئے لڑکی کو اس کے چنگل سے نکال لیا۔ اگلے ہی دن اس اویغور استاد کو گرفتار کر لیا گیا اور اسے بالغوں کے ایک ’ری ایجوکیشن‘ کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ اکتوبر 2019 میں ایوپ نے اس شخص کا پتہ چلایا جو ایک اچھا کھلاڑی بھی تھا۔ تو معلوم ہوا کہ اسے تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان مراکز میں کام کرنے والے باقی کچھ بچ جانے والے اویغور اساتذہ میں سے اگر کوئی اپنی مادری زبان میں بات کرے تو انہیں اس کے لیے سزا دی جاتی ہے۔
اطالوی انسانی حقوق کی تنظیم ’سیسنور‘ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے ایک ہان چینی استاد نے بتایا کہ ’سکول کے نگران باقاعدگی سے طلبہ کا معائنہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم کلاس میں کسی سوال کے جواب کے لیے اویغور زبان کا استعمال کرتا ہے تو اساتذہ کی اجرت میں کٹوتی کر دی جاتی ہے۔‘ وہاں خودکشی کی کوششوں کی بھی کئی کہانیاں ہیں۔ جب اپنے خاندانوں سے بچھڑنے والے بچوں کے بارے میں سوچیں تو امین کا کہنا ہے کہ نامعلوم خوف شدید ترین اذیت کا باعث ہے۔
کیمپوں سے تفصیلات ٹکڑوں میں آتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں عینی شاہدین اور آن لائن ویڈیوز کے ذریعے افشا ہونے والی معلومات ملتی ہیں جو کبھی کبھار ہی ان کیمپوں سے باہر نکل پاتی ہیں۔ پھر خودکشی کی کوششوں کی کہانیاں ہیں۔ بچے بے بسی کا شکار ہیں اور ہر وقت روتے رہتے ہیں۔ وہ حالات کے عادی نہیں ہیں اور مجھے خوف ہے کہ وہ پاگل نہ ہو جائیں۔‘
کیمپوں سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اویغور بچوں کو دل سے کمیونسٹ پارٹی کے قطعے پڑھائے جاتے ہیں، گھنٹوں شی جن پنگ کے مکالمے دیکھنے اور ’مجھے سی سی پی سے پیار ہے! مجھے شی جن پنگ پسند ہے! میں عوامی جمہوریہ چین کا ممبر ہوں!‘ جیسے نعرے لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایک ہان چینی استاد نے بچوں کے ان کیمپوں کے اندر کی زندگی کے بارے میں اپنا تجربہ ایک تعلیمی بلاگ میں شائع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اگست 2017 میں مجھے معلوم ہوا کہ سنکیانگ سرحدی علاقے میں چینی زبان کے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد کی ضرورت ہے۔ میں سنکیانگ کے بدترین اور پسماندہ ترین علاقے ہوٹن پہنچا۔ وہاں میں نے سپیشل پولیس فورس کے افسران کو بندوقوں سے لیس دیکھا جو میرے لیے نیا تجربہ تھا۔‘
’سکول کے حالات واقعی خراب تھے۔ میری کلاس کے طلبہ اب بھی پتلے، خستہ حال، پرانے، گندے اور بدبودار لباس پہنے ہوئے تھے۔ وہ ایک طویل عرصے سے تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ جب میں کلاس روم میں گیا تو یہ بدبو انتہائی ناگوار تھی۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ان بچوں کے والدین کو ’ری ایجوکیشن‘ مراکز میں لے جایا گیا ہے۔‘
پارٹی کے عہدیدار بچوں کے انٹرویو کے لیے یہاں آتے ہیں اور ان انٹرویوز کو شواہد کے طور پر انہی کے والدین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اگر بچہ یہ کہہ دے کہ ان کے والدین نے قرآن پڑھا ہو گا یا سر پر سکارف پہنا تھا تو وہ نادانستہ طور پر کیمپوں میں قید اپنے والدین کی سزا کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔
سنکیانگ کے یہ بدترین حالات چین میں ہونے والے دو دہشتگردی کے واقعات کا رد عمل ہیں۔ پہلا مارچ 2014 میں جب اسلامی بنیاد پرستوں نے کنمنگ ریلوے سٹیشن پر خنجروں کے وار سے مسافروں پر حملہ کیا اور بے دردی سے 33 افراد کو ہلاک اور 140 کو زخمی کر دیا۔ دوسرا واقعہ دو مہینوں بعد پیش آیا جب بارود سے بھری دو گاڑیاں اروومچی کے ایک مصروف شاپنگ سینٹر سے ٹکرا دی گئیں، اس حملے میں 31 لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔
ان واقعات کے بعد کوانگو کو تبت میں اپنے عہدے سے دستبردار کر دیا گیا اور سنکیانگ میں صورت حال کو مستحکم کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ کاغذات پر درج اعدادوشمار دیکھیں تو ان کے کنٹرول کا طریقہ کار کارگر ثابت ہو رہا ہے۔ 2014 میں سنکیانگ میں دہشت گردی کے 37 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ جب کہ 2017 میں ان کے اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد دہشت گردی کے صرف چھ واقعات پیش آئے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ خطے میں نافذ کیے جانے والے اقدامات اویغور بچوں کے لیے مفید ہیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف غربت کا خاتمہ ہو رہا ہے بلکہ یہ انہیں بنیاد پرستی کا نشانہ بننے سے روک رہے ہیں۔ پارٹی اور حکومت کے پیار اور دیکھ بھال سے بچے خوشی خوشی بڑھ رہے ہیں۔ سنکیانگ سے پہلے کوانگو کا سخت گیر نقطہ نظر تبتی ثقافت کو ختم کرنے کا باعث بنا تھا۔
کوانگو نے پرتشدد طریقے سے اپنے احکامات پر عمل درآمد کرایا یہاں تک کہ تبت کی اعتدال پسند انفرادیت کی علامات کو بھی مٹا دیا گیا اور اس پہاڑی علاقے میں ان کے تعمیر کردہ پولیس سٹیشنز کے نیٹ ورک میں درندوں کی علامات لگا دی گئیں۔ اب یہ تن تنہا گورنر مرکزی حکومت کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے جو اویغور اقلیت کے بچوں کو (مرکزی دھارے میں) شامل کرنے اور ان کا برین واش کرنے کے لیے ان کی سماجی انجینئرنگ کی پالیسیوں کے نتائج کا جوش و خروش سے مطالعہ کر رہے ہیں۔
طاہر امین کے نزدیک اس کا مقصد وفادار کیڈرز کی ایک ایسی نسل پیدا کرنا ہے جو ’چینیوں سے زیادہ چینی اور کمیونسٹ پارٹی سے زیادہ کمیونسٹ‘ ہوں۔ ایک نسل کو اپنے حقیقی والدین سے نفرت کرنا اور یہ ماننا کہ صدر شی جن پنگ ان سب کے والد ہیں، سیکھایا جا رہا ہے۔ ازبک نسل سے تعلق رکھنے والی کیمپ کی سابق معلمہ قلبی نور صدیق کا کہنا ہے کہ چینی حکومت ’اغوا کیے گئے‘ اویغور بچوں کی موجودہ نسل کو آخری (مسلمان) نسل بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
قلبی نور صدیق کا کہنا ہے کہ انہیں 2017 میں اپنے وی چیٹ اکاؤنٹ پر ایک پیغام ملا جس میں کہا گیا کہ علاقے کی 18 سے 49 سال کی عمر کی خواتین ایک مرکزی مقام پر پہنچ کر اپنے جسموں کی جانچ پڑتال کروائیں۔ اس سے پتہ چلا کہ اس مہم کا مقصد یہ تھا کہ ہر عورت کے رحم میں ایک آلہ لگایا جائے گا تاکہ وہ بچے نہ پیدا کر سکیں۔
قلبی نور کلینک گئیں اور ان سے کہا کہ انہیں اس عمل سے نہ گزارا جائے کیوں کہ وہ ویسے بھی 45 سال کی عمر میں بچے نہیں چاہتیں لیکن طبی عہدیداروں نے انہیں بتایا کہ یہ لازمی عمل ہے اور اگر وہ اس عمل سے نہ گزریں تو انہیں سخت سزا کا سامنا کرنا ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعدازاں جب انہوں نے دوبارہ سے بالغوں کے ری ایجوکیشن کیمپ میں ٹیچر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا تو قلبی نور صدیق نے ’وہاں زیر حراست ایک بے ہوش خاتون کو دیکھا جس کی ٹانگوں سے خون رس رہا تھا اور اسے گھسیٹ کر لا رہے تھے۔ جب انہوں اپنی ساتھی سے اس بارے میں پوچھا تو انہیں بتایا گیا یہ خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی کا ایک حصہ ہے۔‘
خواتین کے لیے کیمپوں میں بھیانک حالات بیان کرتے ہوئے قلبی نور صدیق کہتی ہیں کہ ہر قیدی کو ایک دن میں تین بار ٹوائلٹ استعمال کرنے کی اجازت تھی اس دوران انہیں پانی کی بالٹی سے خود کی صفائی کے لیے صرف ایک منٹ دیا جاتا تھا جب کہ ہر مہینے ایک بار ہی انہیں غسل کرنے کا موقع ملتا تھا۔
’ان خواتین کے سروں میں جوئیں پڑ گئی تھیں۔ 20 منزلوں کے بلاکس میں ہر منزل پر 20 کمرے تھے جہاں اتنی بھیڑ تھی کہ لوگوں کو لیٹنے کے لیے کروٹ لینا پڑتی تھی کیوں کہ فرش پر جگہ بہت کم تھی۔‘ ایسا لگتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کی یہ پالیسی کارآمد ثابت ہوگی کیوں کہ 2018 میں چینی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار میں اویغور اقلیت میں شرح پیدائش اور آبادی میں اضافے کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
سنکیانگ کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے بجٹ اور مقامی حکومت کی رپورٹوں کا مطالعہ کرنے والی ڈاکٹر زینز کی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ’طویل عرصے تک افزائش نسل روکنے کی ایک منظم پالیسی اور مہم کے ذریعے کم از کم 80 فیصد خواتین کی سرجری کی گئی ہے۔‘ ڈاکٹر زینز نے مزید کہا: ’اقلیتی برادری کی دو کاؤنٹیز کے اعداد و شمار سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کتنی ہی ہزار اویغور خواتین کی نس بندی کی جانی تھی۔‘
آبادیاتی لحاظ سے ایک اقلیت کی نسل کشی کی یہ پالیسی بیجنگ کے اقتدار کے مرکز سے لے کر چین کے تمام معاشرے میں آہستہ آہستہ سرایت کر چکی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا نوجوانوں پر بھی ایک الگ اثر پڑتا ہے۔ 2019 میں جب قلبی نور صدیق سنکیانگ میں آخری بار تھیں، تو وہ ہان چینی سکول کے بچوں کے ایک گروپ کے سامنے بس پر بیٹھ گئیں۔ اچانک بچے بس کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔ ان کی توجہ کا مرکز ایک اویغور خاتون اور اس کا بچہ تھا۔ ان بچوں میں سے ایک نے کہا: ’اوہ وہ دیکھو نظاہر یہاں ابھی بھی اویغور موجود ہیں۔‘
نسلی تسلط کی یہ حکمت عملی، جہاں ہان چینی آبادی کو بڑھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور آہستہ آہستہ اویغور آبادی کا خاتمہ کیا جا رہا ہے، وسائل سے مالا مال سنکیانگ کی سیاسی اور معاشی اہمیت کی عکاسی کرتی ہے۔ صدر شی نے اس خطے کو اپنے اربوں ڈالر کے انفراسٹکچر کے منصوبے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ کے سنگم پر رکھا ہے۔
جیسا کہ طاہر امین کہتے ہیں: ’چین کو زمین کی ضرورت ہے۔ انہیں اویغور باشندوں کی ضرورت نہیں ہے۔‘ انہوں نے ایک اور پریشان کن سوال اٹھایا: ’ان (چینی حکومت) کے لیے یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو یہاں (حراستی مراکز میں) رکھیں جب کہ ہان چینیوں کو یقین ہے کہ وہ جوانی میں پہنچ کر ان کے لیے خطرہ ثابت ہوں گے۔‘
© The Independent