افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا ہے کہ بہت جلد افغان عوام کو قابل قبول سیاسی قیادت دیں گے۔
وہ آج کابل میں ایک پر ہجوم نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے جو افغان طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پہلی باقاعدہ نیوز کانفرنس ہے اور ذبیح اللہ مجاہد کی بھی پہلی نیوز کانفرنس ہے۔
انہوں نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ اشرف غنی لاپتہ ہیں اور انہیں ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کسی سے کوئی انتقام نہیں لیں گے سب کو طالبان کے امیر کے حکم پر معاف کر دیا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کے لیے کام کرنے والوں بشمول وہ مترجم جو امریکہ کے لیے کام کرتے تھے انہیں بھی معاف کر دیا گیا ہے۔
افغان طالبان نے کے ترجمان نے کہا اسلامی امارات افعانستان میں خواتین کو اسلامی قوانین کے مطابق کام کرنے کی اجازت ہوگی اور خواتین کو وہ تمام حقوق دیے جائیں گے جو دین میں ان کو دیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’خواتین معاشرے کا معزز جزو ہیں۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ ’دنیا افعانستان میں سرمایہ کاری کرے کیونکہ اب اس کام کے لیے حالات ساز گار ہیں۔‘
اسی تناظر میں انہوں نے کہا کہ ’خواتین کو ملک بھر کے کونے میں فرائض کی انجام دہی کی اجازت ہوگی۔‘
ایک خاتون صحافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’چند روز صبر کرلیں اس کے بعد دیکھیں کہ نئی حکومت میڈیا کے تناظر میں کیا قوانین اور ضابطے طے کرتی ہے۔‘
البتہ اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ میڈیا آزاد ہے اگر وہ غیر جانبدار رہے تو طالبان کی حکومت اسے خوش آمدید کہے گی اور تنقید کو برداشت کرے گی۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ افغانستان میں قومی بھائی چارے کو فروغ دیں۔
افغان طالبان کے ترجمان نے بتایا کہ فی الحال ہنگامی صورتحال ہے لہذا فوری طور پر سیاسی حکومت کا اعلان ممکن نہیں البتہ اس پر ترجیحی بنیاد پر کام ہو رہا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے عالمی برادری سے کہا کہ ’دنیا اسلامی قوانین کا احترام کرے۔‘
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف یا دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا اور کسی کے گھر میں داخل نہیں ہوں گے اور امید ہے کہ عوام بھی ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 20 سال قبل جب افعانستان میں طالبان کی حکومت تھی اس وقت بھی ملک منشیات سے پاک تھا اور اب بھی انہوں نے یقین دلایا کہ افغانستان منشیات سے پاک ملک ہوگا اور طالبان اس کی نعم البدل فصلیں اگائیں گے۔
بین الاقوامی عدالت جرائم کو افغانستان میں انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں کے خدشات
بین الاقوامی عدالت جرائم (آئی سی سی) نے منگل کو افغانستان میں جرائم کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا جو کہ ادارے کے بقول ’بین الاقوامی انسانی قوانین‘ کی خلاف ورزیوں کے مترادف ہو سکتے ہیں۔
آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کا کہنا ہے کہ ’میں افغانستان میں موجودہ پیش رفت کو قریب سے دیکھ رہا ہوں اور ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کی حالیہ اطلاعات سے سب سے زیادہ پریشان ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ان اطلاعات میں قیدیوں اور ہتھیار ڈالنے والے افراد کا انتقامی قتل، خواتین اور لڑکیوں پر ظلم، بچوں کے خلاف جرائم اور بڑے پیمانے پر شہری آبادی کو متاثر کرنے والے دیگر جرائم کی شکل میں ماورائے عدالت قتل کے الزامات شامل ہیں۔‘
کریم خان نے ایک بیان میں کہا کہ مبینہ جرائم ’بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں کے مترادف ہو سکتا ہے‘ جنہیں ان کا دفتر تحقیقات کے لیے منتخب کر سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغانستان پر بجلی کی رفتار سے طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں افراد طالبان کے ظلم و ستم کے خوف سے فرار ہو رہے ہیں۔
یہ لوگ 1996 سے 2001 تک اس ملک پر حکومت کرتے تھے۔
مارچ 2020 میں ہیگ میں قائم آئی سی سی نے ایک اپیل کورٹ کے فیصلے میں افغانستان میں امریکی فوجیوں کے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا اختیار دیا تھا۔
آئی سی سی کے اس بیان سے کچھ ہی دیر قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ طالبان کسی پر ظلم نہیں کریں اور نہ ہی کسی سے بدلہ لیں گے بلکہ طالبان نے اپنے امیر کے حکم اپنے مخالفین اور ان افغانوں کو بھی معاف کر دیا ہے جو امریکیوں کے ساتھ مترجم یا دیگر شعبوں میں کام کر رہے تھے۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے سے پہلے حکومت کے نائب صدر امر اللہ صالح کا کہنا ہے کہ’میں قانونی طور پہ افغانستان کا قائم مقام صدر‘ ہوں۔
اپنے ٹوئٹر بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’اسلامی جمہوریہ افغانستان کے آئین کی واضح شق کے مطابق صدر کی غیر موجودگی ، فرار یا موت کی صورت میں پہلا نائب صدر قائم مقام صدر ہوگا۔ میں ملک کے اندر ہوں اور میں قانونی اور قانونی طور پر اس عہدے / کرسی کا انچارج ہوں۔ میں اس پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے ملک کے تمام رہنماؤں سے مشاورت کر رہا ہوں۔
به اساس حکم صریح قانون اساسی جمهوری اسلامی افغانستان در صورت غیابت، فرار و یا مرگ رییس جمهور معاون اول بحیث سرپرست مقام ریاست جمهوری قرار میگیرد. من در داخل کشور استم و بصورت قانونی و مشروع سرپرست این مقام /کرسی می باشم. برای تحکیم این جایگاه باتمام رهبران کشور در مشوره استم.
— Amrullah Saleh (@AmrullahSaleh2) August 17, 2021
طالبان نے افغانستان میں تمام سرکاری ملازمین کے لیے ’عام معافی‘ کا اعلان کرتے ہوئے انہیں کام پر واپس آنے کے لیے کہا ہے، جب کہ خواتین کو بھی اس کی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔
انہوں نے منگل کو ایک بیان میں کہا: ’سب کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔۔ آپ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی معمول کی زندگی میں واپس آ جائیں۔‘
دوسری جانب خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان کی ثقافتی کمیشن کے رکن انعام اللہ ثمنگنی نے ایک بیان میں کہا: ’اسلامی امارات خواتین کو متاثرین کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتی۔ انہیں شرعی قانون کے مطابق حکومتی ڈھانچے میں ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ اسلامی قیادت ہونی چاہیے اور اس میں تمام فریقین شامل ہونے چاہییں۔
’ہمارے لوگ مسلمان ہیں اور ہم ان پر زبردستی اسلام نافذ کرنے نہیں آئے ہیں۔‘
طالبان کے قبضے کی ذمہ دار افغان قیادت اور فوج ہے: صدر بائیڈن
امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اپنے فیصلے پر مکمل طور پر قائم ہیں اور انہوں نے امریکیوں کے ساتھ کیا گیا اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔
افغانستان سے فوجی انخلا کے دوران طالبان کے تیزی سے ملک پر قبضے نے جنوری میں عہدہ سنبھالنے والے جو بائیڈن کو اپنی صدارت کے بدترین بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
انہوں نے اس سال اعلان کیا تھا کہ اگست سے آخر تک امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گئی اور حالیہ ہفتوں میں ملک میں طالبان کی تیز پیش قدمی کے باوجود وہ اس فیصلے پر قائم رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو وائٹ ہاؤس میں ایک خطاب میں امریکی صدر نے افغانستان میں جاری صورت حال پر اپنی خاموشی توڑی اور کہا کہ افغانستان پر قبضے کے ذمہ دار افغان رہنما ہیں جو ملک سے فرار ہو گئے اور افغان فوج ہے جو امریکی تربیت یافتہ ہونے کے باوجود عسکریت پسند گروپ سے لڑنے کو تیار نہیں۔
بائیڈن نے خاص طور پر دو اعلیٰ افغان رہنماؤں صدر اشرف غنی اور اعلیٰ قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دونوں نے طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیے کے لیے ان کا مشورہ ماننے سے ’صاف انکار‘ کر دیا۔
امریکی صدرکے بقول: ’ہم نے انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا ہر موقع دیا۔ ہم انہیں اس مستقبل کی خاطر لڑنے کا جذبہ نہیں دے سکے۔ امریکی فوجی ایسی جنگ میں لڑ اور مر نہیں سکتے جو افغان فورسز خود لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ ’20 سال میں میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کا کوئی بھی مناسب وقت نہیں تھا۔‘
امریکی صدر نے کہا: ’آپ کیا چاہتے ہیں امریکی نسلوں کی مزید کتنے بیٹے بیٹیوں کو افغانوں اور افغان خانہ جنگی میں لڑنے کے لیے بھیجوں؟ جب حالات یہ ہوں کہ افغان فوج خود نہیں لڑے گی۔ کیا ایسا کرنا درست ہو گا؟ آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں ختم نہ ہونے والی کتبوں کی کتنی قطاریں بنیں گی؟‘
ان کا کہنا تھا: ’افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم سازی نہیں تھا۔ یہ کبھی بھی متفقہ مرکزی جمہوریت کی تشکیل کے لیے نہیں تھا۔ افغانستان میں ہمارا واحد اہم قومی مفاد آج بھی وہی ہے جو ہمیشہ رہا ہے، امریکی سرزمین پر دہشت گرد حملوں کی روک تھام۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جو بائیڈن نے طالبان کو خبر دار کیا ہے اگر انہوں نے امریکی انخلا میں مداخلت کی تو انہیں ’تباہ کن طاقت‘ کا سامنا کرنا ہو گا۔
بائیڈن کو کابل میں امریکی فوج تعینات کرنی پڑی ہے تا کہ امریکی سفارتی عملے، شہریوں اور ان افغانوں کے انخلا کو تحفظ فراہم کیا جا سکے جنہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کیا اور اب انہیں طالبان کی طرف سے انتقام کا خطرہ ہے۔
اے ایف پی کے مطابق صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ ’ذمہ داری مجھ پر آن پڑی ہے۔‘
یہ تنقید کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا شکست کے مترادف ہے، کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترجیح ایسی جنگ کو روکنا ہے جو نائن الیون کے بعد القاعدہ سے تعلقات پر طالبان کو سزا دینے کے معتدل اہداف سے کہیں زیادہ آگے نکل گئی۔
امریکی صدر کے بقول: ’افغانستان میں ہمارا مشن قومی تعمیر کبھی نہیں رہا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کی واپسی کے باوجود دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔
’میں جانتا ہوں کہ میرے فیصلے پر تنقید کی جائے گی لیکن میں اس فیصلے کی ذمہ داری امریکہ کے اگلے صدر کو منتقل کرنے کی بجائے تمام تنقید برداشت کروں گا۔‘
بھارتی سفارت خانے سے بھی انخلا
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے منگل کو دہلی میں کہا ہے کہ کابل میں سفیر سمیت بھارتی سفارت خانے کے حکام کو نکالا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترجمان کا ٹوئٹر پوسٹ میں کہنا تھا کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر ’فیصلہ کیا گیا ہے کہ کابل میں ہمارے سفیر اور ان کے بھارتی عملے کو فوری طور پر بھارت منتقل کیا جائے گا۔‘
واضح رہے کہ دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے جانے کے لیے بے چین ہزاروں افراد پیر کو کابل کے ہوائی اڈے پر جمع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے امریکہ کو اپنے شہریوں کے انخلا کا عمل عارضی طور پر روکنا پڑٖا۔