پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدارتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مشترکہ امیدوار میاں عبدالوحید سے تھا۔
منگل کو والے انتخابات میں بیرسٹر سلطان نے پی ٹی آئی اور اتحادیوں کے تمام 34 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل امیدوار میاں عبدالوحید کو 16 ووٹ ملے۔ دو نشستوں سے جیتنے والے پیپلز پارٹی کے چوہدری یاسین نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا جبکہ میاں وحید کے روایتی حریف مسلم لیگ (ن) کے شاہ غلام قادر نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا-
اس سے قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر کے انتخابات کے لیے الیکٹورل کالج قانون ساز اسمبلی کے علاوہ ’آزاد جموں و کشمیر کونسل‘ کے چھ منتخب اراکین پر مشتمل ہوتا تھا۔ تاہم سال 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی اسمبلی کی جانب سے 13ویں آئینی ترمیم کے تحت کونسل سے مالی و انتظامی اختیارات کے ساتھ ساتھ چھ منتخب کونسل اراکین سے صدر کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا۔ صدر کے انتخاب میں صرف اراکین قانون ساز اسمبلی نے ووٹ ڈالا۔
53 رکنی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس 32 نشستیں ہیں جبکہ اسے مسلم کانفرنس اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے ایک ایک رکن کی بھی حمایت حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی 18 نشستیں ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی کے چوہدری یاسین کو دو نشستوں سے انتخابات جیتنے کے سبب ایک نشست چھوڑنا پڑی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے موجودہ صدر سردار مسعود خان 24 اگست کو اپنی مدت پوری کر کے سبکدوش ہو جائیں گے اور بیرسٹر سلطان متوقع طور پر 26 اگست کو حلف اٹھائیں گے۔
وہ مجموعی طور پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے 27ویں صدر ہوں گے۔ ان سے قبل پانچ فوجی، پانچ عبوری اور ایک نگران صدر سمیت مجموعی طور پر 26 صدور وقتاً فوقتاً خدمات سر انجام دے چکے۔
بیرسٹر سلطان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حالیہ انتخابات میں میرپور سے کامیابی حاصل کی اور وہ وزارت عظمٰی کے مضبوط ترین امیدوار تصور کیے جاتے تھے تاہم معروف سرمایہ کار سردار تنویر الیاس اور بیرسٹر کے درمیان زبردست کشمکش کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے دونوں راہنماؤں کے بجائے سردار عبدالقیوم نیازی کو وزیر اعظم نامزد کر دیا جس پر بیرسٹر سلطان کی جانب سے احتجاج بھی سامنے آیا۔
بیرسٹر سلطان نے ابتدائی مراحل میں صدر کی نامزدگی قبول کرنے سے واضح انکار کیا تاہم بعد ازاں یہ نامزدگی قبول کر لی تھی۔ بتایا جاتا ہے بیرسٹر سلطان کے صدر نامزد ہونے میں سردار تنویر الیاس علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے ان راہنماوں کا کردار ہے جو بیرسٹر سلطان کو اسمبلی سے نکال کر سردار تنویر الیاس کو وزیر اعظم بنانے کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔
بیرسٹر سلطان کون ہیں؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پی ٹی آئی کی مقامی شاخ کے صدر بیرسٹر سلطان محمود کشمیر لگ بھگ ساڑھے تین دہائیوں سے کشمیر کی سیاست میں سرگرم ہیں۔ ان کے والد چوہدری نور حسین بھی خطے کی جانی پہچانی سیاسی شخصیت تھے۔ انہوں نے آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس سے علیحدہ ’آزاد مسلم کانفرنس‘ نامی جماعت کے پلیٹ فارم سے کشمیر کی سیاست میں فعال کردار ادا کیا۔
بیرسٹر سلطان محمود نے برطانیہ سے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی اور 80 کی دہائی میں واپس آ کر اپنے والد کی جماعت آزاد مسلم کانفرنس کی صدارت سنبھال کر عملی سیاست کا آغاز کیا۔ 1985 میں بیرسٹر سلطان پہلی مرتبہ قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ تب سے لے کر اب تک وہ آٹھ مرتبہ انتخابات جیت چکے ہیں اس دوران وہ ایک مرتبہ وزیر اعظم اور ایک مرتبہ اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1990 میں ممبر اسمبلی منتخب ہونے کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اس شرط پر اتحاد کیا کہ انہیں پاکستان کے زیر انتطام کشمیر کا صدر بنایا جائے تاہم پیپلز پارٹی کے کئی منتخب اراکین نے انہیں ووٹ دینے سے انکار کر دیا اور ان کے مقابلے میں سردار عبدالقیوم کو صدر منتخب کیا۔
1991 کے انتخابات میں بیرسٹر سلطان محمود پہلی مرتبہ اپنی آبائی نشست سے الیکشن ہارے۔ اس شکست کے بعد انہوں نے آزاد مسلم کانفرنس نامی جماعت کو جموں و کشمیر لبریشن لیگ میں ضم کر دیا اور اس جماعت کے صدر بن گئے۔ تاہم 1996 کے عام انتخابات سے پہلے ہی پیپلز پارٹی کا صدر بننے کی شرط پر وہ لبریشن لیگ سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ 1996 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد بیرسٹر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔
12 اکتوبر 1999 کو پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد اقتدار پر جنرل مشرف کے قبضے کے باوجود پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی اور حکومت کے ساتھ نہیں چھیڑا گیا اور بیرسٹر سلطان بدستور وزیر اعظم رہے۔ اگلے دو سالوں میں انہوں نے جنرل مشرف کے سات قریبی تعلقات پیدا کر لیے۔ تاہم گجرات کے چوہدری برادرن کی مداخلت اور ان کی جانب سے مسلم کانفرنس کی حمایت کے باعث پیپلز پارٹی 2001 کے انتخابات ہار گئی اور بیرسٹر سلطان قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔
فوجی حکمرانوں کے ساتھ روابط رکھنے کی وجہ سے محترمہ بےنظیر بھٹو پہلے ہی بیرسٹر سلطان سے نالاں تھیں، اس دوران چوہدری محبوب نامی اپنے ایک عزیز کو کشمیر کونسل کا ممبر بنوانے کی کوشش پر محترمہ بےنظیر بھٹو اور بیرسٹر سلطان کے درمیان اختلافات شدید ہو گئے اور بےنظیر بھٹو نے انہیں پارٹی صدارت سے ہٹا کر صاحبزادہ اسحاق ظفر کو پارٹی صدر بنا دیا۔
2006 کے انتخابات سے قبل بیرسٹر سلطان اپنے ہم خیال راہنماوں کا ایک دھڑا لے کر پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہو گئے اور پیپلز مسلم لیگ کے نام سے جماعت قائم کر لی۔ انہوں نے میاں نواز شریف کی قربت حاصل کرنے اور پیپلز مسلم لیگ کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی نمائندہ جماعت قرار دلوانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اگرچہ ان کی جماعت 2006 کے انتخابات میں محض چار نشستیں حاصل کر سکی تاہم پیپلز پارٹی کو انتخابات ہرانے میں اہم کردار ادا کیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلم کانفرنس مسلسل دوسری بار انتخابات جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
بیرسٹر سلطان کی پیپلز مسلم لیگ بھی محض پانچ سال چل سکی اور 2011 کے انتخابات سے قبل انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی جماعت کو پیپلز پارٹی میں ضم کر دیا تاہم کوششوں کے باوجود اس مرتبہ انہیں نہ تو جماعت کی صدرت ملی اور نہ ہی انتخابات جیتنے کے بعد انہیں وزیر اعظم بنایا گیا۔
2013 میں پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت بننے کے دو ماہ بعد جولائی میں بیرسٹر سلطان نے پیپلز پارٹی کے اندر اپنے ہم خیال لوگوں کا ایک فارورڈ بلاک تشکیل دے کر وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ تاہم نواز شریف نے اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کو اس تحریک کی حمایت سے روک دیا۔ نتیجتاً یہ تحریک ناکام ہوئی اور بیرسٹر سلطان کو دوسری بار پیپلز پارٹی چھوڑنا پڑی۔
پیپلز پارٹی چھوڑنے کے بعد بیرسٹر سلطان نے ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف کی قربت بڑھانے کی کوشش کی مگر ان کی جانب سے مثبت جواب نہ ملنے پر 2015 میں بیرسٹر سلطان محمود تحریک انصاف میں شامل ہو کر اس کے صدر بن گئے۔ 2016 کے انتخابات میں ان کی صدارت میں نہ صرف جماعت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بلکہ وہ خود بھی اپنی آبائی نشست سے الیکشن ہار گئے۔
ان کے مد مقابل جیتنے والے مسلم لیگ (ن) کے چوہدری سعید کو 2019 میں عدالت نے نااہل قرار دے دیا۔ اس نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں بیرسٹر سلطان ایک مرتبہ پھر رکن قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے۔
25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں ان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے فیصلہ کن کامیابی حاصل کی اور بیرسٹر سلطان مجموعی طور پر آٹھویں مرتبہ رکن قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے۔
1885 سے 2021 تک بیرسٹر سلطان نے دس مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا اور صرف دو مرتبہ اپنی نشست ہارے۔