جاپان کے شہر ٹوکیو میں اولمپکس مقابلوں کے بعد اب پیرالمپکس کا آغاز ہونے والا ہے اور پاکستان سے دو ایتھلیٹ حیدر علی اور انیلہ بیگ ان مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے 20 اگست کو روانہ ہوں گے۔
یہ دونوں اتھلیٹ ڈسکس تھرو مقابلوں میں حصہ لیں گے اور پاکستان کو سونے، چاندی یا کانسی کے میڈل دلوانے کے لیے دونوں کھلاڑی پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن حیدر علی اس لیے زیادہ پر امید ہیں کہ ان کا ماضی میں ریکارڈ کافی بہتر ہے۔
وہ 2016 میں برازیل میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں کانسی کا میڈل جیت چکے ہیں جب کہ بیجنگ، چین میں 2019 کے دوران ہونے والی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کے دوران سونے کا میڈل بھی اپنے نام کر چکے ہیں۔
اسی طرح انہوں نے انڈونیشیا اتھلیٹکس پیراگیمز 2018 میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا۔
حیدرعلی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ٹوکیو میں پاکستان کو میڈل دلوانے کے لیے کافی پر امید ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا تعلق گجرانوالہ سے ہے اور دو سال سے مسلسل ٹوکیو اولمپکس کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے دبئی مقابلوں کے دوران ڈسکس تھرو میں سلور میڈل جیت کر ٹوکیو پیرالمپکس کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔
انہوں نے کہا: ’ویسے تو مقابلہ سخت ہے خاص طور پر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے اور آسٹریلیا، امریکہ اور چین سے تعلق رکھنے والے ایتھلیٹ بہت باصلاحیت ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہمیں سہولیات بھی میسر نہیں جس طرح ارشد ندیم نے کہا کہ سہولیات کے بغیر تمغے نہیں جیتے جاسکتے وہ بالکل ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ ہمارے مقابلے میں آنے والے ایتھلیٹ عالمی سطح کی سہولیات کے ساتھ تربیت یافتہ ہوتے ہیں ہمیں تو اس معیار کی کوچنگ بھی میسر نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب ٹوکیو روانگی سے چند دن پہلے پنجاب سپورٹس بورڈ نے پریکٹس کے لیے بلایا ہے جبکہ دو سال سے گجرانوالہ میں ہی اپنے طور پر پریکٹس کررہا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ سہولیات نہ ہونے کے باوجود وہ عالمی سطح پر پہلے بھی ملک کا نام روشن کر چکے ہیں ٹوکیو میں بھی ملک کا پرچم ضرور کامیابی سے لہرائیں گے۔
ان کے مطابق 20 اگست کو وہ ٹوکیو کے لیے رونہ ہوں گے اور مقابلے تین ستمبر سے شروع ہوں گے۔