اگر کسی فرد واحد کے لیے افغانستان میں امن قائم کرنا ممکن تھا تو امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے خود کو اس کام کے لیے پیش کیا لیکن آخر میں اس تجربہ کار سفارت کار کو اس ملک کی تباہی دیکھنی پڑی جسے انہوں نے بڑی تکلیف اٹھا کر قائم کیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 70 سالہ افغان نژاد امریکی سفارت کار زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں واشنگٹن کے سرکردہ نمائندے کی حیثیت سے کئی سال گزارے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں اس معاہدے کی راہ ہموار ہوئی جس کی بدولت امریکہ کو اپنی طویل جنگ ختم کرنے اور افغانستان سے نکلنے کا موقع ملا۔ یہ سنگ میل ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی بھاگ دوڑ پر مبنی زبردست سفارت کاری کے بعد حاصل کیا گیا۔
سفارت کاری کے دوران زلمے خلیل زاد نے غیر ملکی دارالحکومتوں کے دورے کیے۔ شاندار ہوٹلوں میں ہونے والی سربراہ کانفرنسوں میں شرکت اور ممتاز تھنک ٹینکس سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے سامعین کو یقین دلایا کہ طالبان سمجھوتے پر تیار ہیں۔
زلمے خلیل زاد جو کبھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک توانا آواز ہوا کرتے تھے، ایک بھرپور یلغار کے نتیجے میں امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان کی اقتدار میں واپسی پر خاموش ہوگئے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکی نمائندے گذشتہ ہفتے قطر میں رہے۔ انہوں نے افغان مسئلے کے سفارتی تصفیے کی حوصلہ افزائی کی امید میں فون پر کام کیا، لیکن وہ معاہدہ، جس کے بارے میں انہیں امید تھی کہ اس سے جنگ ختم ہو جائے گی درحقیقت تباہی کا سبب بن گیا۔
ہڈسن انسٹیٹیوٹ میں سینیئر فیلو حسین حقانی کا کہنا ہے کہ خلیل زاد نے امریکی فوجیوں کی افغانستان سے واپسی کے لیے مشتاق ایک کے بعد آنے والے دوسرے امریکی صدر کو بتایا کہ وہ امن معاہدہ کر چکے ہیں لیکن دراصل یہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف تھا۔ حقانی نے اے ایف پی کو بتایا: ’انہوں (زلمے خلیل زاد) نے مذاکرات میں کمزوری دکھائی اور طالبان کا حوصلہ بڑھایا۔ انہوں نے ایسا ظاہر کیا کہ مذاکرات کے نتیجے میں شراکت اقتدار کا معاہدہ ہوجائے گا حالانکہ طالبان کا شراکت اقتدار کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘
زلمے خلیل زاد نے 2018 میں افغان مصالحتی عمل کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں ٹرمپ انتظامیہ نے نمائندہ خصوصی نامزد کیا، جس کا کام طالبان کے ساتھ ہونے والے مذکرات کی نگرانی کرنا تھا۔ نئی ذمہ داری کے بعد ان کے کیریئر میں کئی موڑ آئے۔ خلیل زاد ایک کے بعد ایک ہونے والے امریکی حملوں کے بعد افغانستان میں کئی کمزور حکومتیں قائم کر چکے تھے۔ انہیں مخالف گروپوں کو ایک میز پر لانے والے شخص کے طور پر شہرت ملی۔
مذاکرات جاری رکھنے کے امریکی فیصلے کا نتیجہ کابل میں برسوں جاری رہنے والے تشدد کی صورت میں نکلا۔ خلیل زاد نے طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر کو پاکستان کی تحویل سے رہا کروایا تاکہ فریقین کے درمیان بات چیت شروع کروائی جا سکے۔ دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ ہوا جس کی بدولت تقریباً دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ ختم کرتے ہوئے افغانستان سے امریکی انخلا کی راہ ہموار ہو ئی۔ قطر میں مہینوں جاری رہنے والے مذاکرات کے دوران خلیل زاد کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے طالبان کے وفد کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر لیے ہیں۔
آن لائن شائع ہونے والی تصاویر میں دیکھا گیا کہ گھل مل جانے والے امریکی نمائندے عسکریت پسند مذاکرات کاروں کے ساتھ مل کر قہقہے لگا اور مسکرا رہے ہیں۔ اس صورت حال پر افغانستان میں ناراضی کا اظہار کیا گیا جہاں جنگ جاری تھی۔ لیکن جب فروری 2020 میں دوحہ میں ہونے والی ایک شاندار تقریب میں بالآخر امریکی انخلا کے معاہدے پر دستخط ہو گئے تو خلیل زاد نے طالبان کی جانب مستقبل میں امن کے حوالے سے زیادہ تر مبہم یقین دہانیاں حاصل کیں۔ افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والی کیٹ کلارک نے اپنی نئی رپورٹ میں لکھا کہ ’خلیل زاد صرف ایک ٹھوس وعدے میں کامیاب رہے کہ وہ (طالبان) امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملہ نہیں کریں گے۔‘
طالبان کی طرف سے اور بھی زیادہ مبہم وعدے القاعدہ، دوسرے بین الاقوامی جہادی گروپوں کو چھوڑنے اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد میں سامنے آیا کہ طالبان کے ساتھ ہونے والا معاہدہ امریکہ کی جانب سے مراعات سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ امریکہ جنگ بندی کے بغیر افغانستان کو چھوڑ رہا تھا حتیٰ کہ اس نے مستقبل کے امن منصوبے کے لیے کوئی طریقہ کار تک وضع نہیں کیا تھا، جو جنگ کے خاتمے کی خاطر کسی معاہدے کے لیے اہم ثابت ہوتا۔ معاہدے کے بعد کے مہینوں میں طالبان کی جانب سے سمجھوتوں کی یقین دہانیاں حاصل کرنے کی بجائے خلیل زاد نے افغان حکومت پر دباؤ بڑھا دیا۔ افغان صدارتی محل سے ہزاروں عسکریت پسند قیدی رہا کروائے گئے جنہوں نے جنگجوؤں کی صفوں کو مضبوط کیا۔
کابل کے مسائل میں اضافہ کرنے کے لیے معاہدے کے نتیجے میں الٹی گنتی شروع ہوگئی کہ امریکہ مئی 2021 تک باقی ماندہ فوج افغانستان سے نکال لے گا۔ یہ وہ حتمی تاریخ تھی جس میں ستمبر تک توسیع کر دی گئی۔ افغان حکومت کے پاس بہت کم وقت یا گنجائش باقی بچی کہ وہ ہاتھ پیر مارسکے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے امریکی فوج کے انخلا کے اپریل میں کیے جانے والے فیصلے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور طالبان نے بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کی، جس کے نتیجے میں 15 اگست کو افغان حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
افغانستان میں لڑنے والے سابق فوجی افسر اور امریکی قانون ساز مائیکل والٹز نے صدر بائیڈن کو خط لکھ کر خلیل زاد کی کارکردگی پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے خط میں لکھا: ’خلیل زاد نے آپ کو کمزور مشورہ دیا اور ان کی حکمت عملی بری طرح ناکام رہی۔ اس تباہی کے پیش نظر خلیل زاد کو استعفیٰ دے دینا چاہیے یا انہیں عہدے سے ہٹا دیا جائے۔‘
اسی روز خلیل زاد نے اپنی آخری ٹویٹ میں طالبان سے درخواست کی کہ وہ کابل کو گھیرے میں لینے والے اپنی جنگجوؤں کو واپس بلا لیں۔ امریکی نمائندے نے لکھا کہ ’ہم شہروں پر حملے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور سیاسی تصفیے پر زور دیتے ہیں۔ ہم خبر دار کرتے ہیں کہ طاقت کے ذریعے مسلط کی گئی حکومت کے نتیجے میں ایسی ریاست قائم ہوگی جسے مسترد کر دیا جائے گا۔‘ تاہم خلیل زاد کے یہ لکھنے تک بہت دیر ہو چکی تھی۔