سپریم کورٹ میں میڈیا ہراسانی اور سینسرشپ کیس ایک دلچسپ نوعیت کا کیس ہے، جو صحافی عبدالقیوم صدیقی کی 20 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی عدالت میں ایک درخواست سے شروع ہوا اور آج جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں اختتام پذیر ہوگیا۔
یہ کیس دلچسپ اس لیے ہے کہ اس کا آغاز صحافیوں کی ہراسانی کے معاملے سے شروع ہوا مگر بعد میں یہ کیس ججوں کے ازخود (سوموٹو) نوٹس لینے کے اختیارات اور سپریم کورٹ ججوں میں تفریق کے تاثر پر پہنچ گیا۔
اس کیس کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ دراصل چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات کو دیکھ رہا تھا جب کہ بینچ میں ایسے جج بھی موجود تھے جو مستقبل میں چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مستقبل میں اپنے اختیارات پر کیس کی سماعت کر رہے تھے۔
جمعرات کی صبح نو بجکر 30 منٹ پر اس کیس کا آغاز سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں ہوا۔ اس کمرے کو تاریخی حیثیت حاصل ہے کیوںکہ بیشتر تاریخی مقدمات اسی عدالت میں زیر سماعت رہے ہیں۔ کرونا وبا کے باعث عدالتی نشستوں میں وقفہ رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے حاضرین کی تعداد کم ہوتی ہے۔ عدالتی کارروائی کے آغاز پر کرونا وبا کے باعث خالی چھوڑی گئی نشستوں کے علاوہ تمام نشستوں پر وکلا اور حاضرین موجود تھے۔
حسب روایت بینچ کے سربراہ قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال درمیانی نشست پر موجود تھے۔ ان کے دائیں جانب جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی امین بالترتیب بیٹھے تھے جب کہ بائیں جانب بالترتیب جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر موجود تھے۔
کمرہ عدالت میں صحافی حامد میر، صحافی یونینز کے رہنما اور مسلم لیگ ن کے کیپٹن (ر) صفدر بھی موجود تھے۔ اگرچہ کیپٹن صفدر اپنے ہی کسی اور کیس کے لیے عدالت میں موجود تھے مگر ان کی اس کیس میں دلچسپی ان کی صحافیوں سے گفتگو سے ظاہر ہو رہی تھی۔
عدالتی کارروائی کا آغاز پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوش دل خان کے دلائل سے ہوا۔ ایڈووکیٹ خوش دل خان کے دلائل اور بینچ کے ان سے سوالات ازخود نوٹس لینے کے اختیارات سے متعلق تھے، تاہم ان دلائل کے دوران جب بھی جسٹس عمر عطا بندیال یا جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے کوئی سوال کیا تو وہ جواب دینے کے لیے بے تاب نظر آئے اور دونوں ججز کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی بولنا شروع کر دیتے۔
ایک ایسا وقت بھی آیا جب جسٹس عمر عطا بندیال کیس کے تین اہم سوالات بتا رہے تھے تو دوسرے سوال کے بعد ہی خوش دل خان نے بولنا شروع کر دیا۔ جس پر جسٹس بندیال نے ان سے کہا کہ ان کی بات مکمل نہیں ہوئی اور اگر انہیں پتہ ہے کہ وہ آگے کیا بولیں گے تو بتا دیں کہ تیسرا سوال کیا ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی ایک موقعے پر خوش دل خان سے کہا کہ پہلے انہیں بات مکمل کرنے دیں۔
جس کے بعد خوش دل خان نے ایک اور موقع پر کہا کہ ’آپ مجھ بات پوری کرنے نہیں دیتے۔‘ انہوں نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان جو ان کے بائیں جانب اپنی نشست پر موجود تھے، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کل پورا دن انہیں دیا گیا تھا۔
خوش دل خان کے دلائل جاری تھے، کمرہ عدالت میں آہستہ آہستہ اور وکیل بھی آ رہے تھے اور نئے آنے والے سینیئر وکلا کے لیے جونیئر وکلا اپنی نشستیں خالی کر رہے تھے۔ دلائل کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن اپنے دائیں جانب موجود جسٹس قاضی امین سے مشاورت کرتے بھی نظر آئے۔
خوش دل خان اور بینچ کے درمیان بحث جاری رہی اور عمومی طور پر پچھلی نشستوں پر موجود افراد جو عدالتی کارروائی کے دوران اونگھ رہے ہوتے ہیں، وہ کارروائی دیکھنے میں مگن رہے۔
دس بج کر 12 منٹ پر صحافی عبدالقیوم صدیقی کمرہ عدالت میں آئے تو آتے ہوئے دیگر صحافیوں سے کارروائی کا احوال پوچھا۔ عموماً صحافی خبر پہنچاتا ہے مگر اس کیس میں کیونکہ مدعی پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ ہے، اس لیے صحافی بھی خبر کا مرکز ہیں۔
خوش دل خان نے دس بج کر 15 منٹ پر اپنے دلائل ختم کیے تو ان کے بعد صحافی عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون روسٹرم پر آئے۔ ان کے روسٹرم پر آتے ہوئے ایک صحافی نے ساتھ بیٹھے دوسرے صحافی سے سوال کیا کہ کیا یہ عامر میر کے وکیل ہیں یا حامد میر کے؟ اور پھر تین نشستیں دور بیٹھے حامد میر سے ہی اس سوال کا جواب لیا۔ صحافی عامر میر حامد میر کے بھائی ہیں اور انہیں چند ہفتے قبل ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا جس کے باعث انہوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔
وکیل جہانگیر جدون نے بھی دلائل شروع کیے تو انہیں بینچ کی جانب سے تندوتیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ جہانگیر جدون کے دلائل عدالت میں براہ راست جج کو درخواست دینے سے متعلق تھے۔
جہانگیر جدون کو بینچ کی جانب سے دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ اپنے دلائل کو ازخود نوٹس اختیارات اور درخواست جمع کرانے کے طریقہ کار تک محدود رکھیں۔ ایک موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں یہ بھی کہا کہ ’آپ بے ترتیب (rambling) گفتگو کر رہے ہیں۔‘
جسٹس قاضی امین نے بھی انہیں کہا کہ ’آپ تحمل رکھیں۔ اس عدالت کے سامنے پیش ہونا ایک اعزاز کی بات ہے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل جہانگیر جدون کے دلائل میں سقم نکالتے ہوئے ان کے دلائل ختم کرنے کی کوشش کی تو جہانگیر جدون نے اپنے دلائل مکمل کرنے کے لیے وقت مانگا جو انہیں فراہم کر دیا گیا۔
جہانگیر جدون کے دلائل سے نہ صرف بینچ بلکہ کمرے میں موجود صحافی بھی متاثر نہیں لگ رہے تھے۔ ان کے دلائل کے آخر میں جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے کہا: ’آپ کو تھوڑی تسلی دے دیتے ہیں‘ جس پر جہانگیر جدون نے کہ ’وہ تو ہو گئی ہے۔‘ جہانگیر جدون کے اس جملے سے کمرہ عدالت میں قہقہ گونج اٹھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں کہا کہ ’آپ (عامر میر) کی پٹیشن کو سنا جائے گا۔‘
جہانگیر جدون کے بعد پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صدر امجد نذیر بھٹی روسٹرم آئے، جنہیں جسٹس بندیال نے یہ کہہ کر خوش آمدید کہا کہ ’آئیے بھٹی صاحب، آپ ہی تو اصل لیڈر ہیں۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے امجد بھٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر صحافیوں پر کوئی زد پڑے گی تو ہم دیوار ثابت ہوں گے۔۔۔۔صحافیوں کے بنیادی حقوق میں سپریم کورٹ آپ کے ساتھ ہو گی۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی انہیں کہا کہ ’آپ کے ارادوں پر کوئی شک نہیں ہے، ہم آپ کے بھائی ہیں۔‘
10 بج کر 47 منٹ پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالطیف آفریدی اپنے دلائل کے لیے بینچ کے سامنے آئے۔ عبدالطیف آفریدی کے دلائل تقریباً 30 منٹ جاری رہے اور اس دوران انہیں ایک بار بھی ٹوکا نہیں گیا۔ ان سے پہلے دونوں وکلا کو دلائل کے درمیان بینچ کے سخت سوالات کا سامنا رہا۔
عبدالطیف آفریدی نے بینچ سے استدعا کی کہ 184(3) کے تحت ازخود نوٹس کے معاملہ ہمیشہ کے لیے نمٹایا جانا چاہیے۔ انہوں نے بینچ سے یہ بھی کہا کہ اس تاثر کو زائل کیا جانا چاہیے کہ سپریم کورٹ میں تفریق ہے کیونکہ عوام میں یہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ’ہماری خواہش ہے کہ سپریم کورٹ متحد رہے۔‘
عبدالطیف آفریدی نے کہا کہ ماضی میں سیاسی معاملات سپریم کورٹ کے سامنے لائے گئے اور ان پر فیصلے لیے گئے، جس کے باعث عدالت کی ساکھ متاثر ہوئی۔
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ موجودہ معاملے کو چیف جسٹس گلزار احمد کے لیے چھوڑ دیا جائے، وہ اپنی واپسی پر باقی ججز کو ملا کر اس معاملے کا جائزہ لیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد اس وقت امریکہ میں چھٹیوں پر موجود ہیں۔
عبدالطیف آفریدی نے جسٹس بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے حکم نامے میں (abeyance) یعنی ’معطل‘ کے لفظ کے استعمال پر بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ جنرل ضیا الحق نے 1977 میں جب اقتدار پر قبضہ کیا تو آئین کو معطل کیا تھا، جس کے لیے تقریر میں abeyance کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالتی کارروائی میں عموماً 11 بجے چائے کا وقفہ ہوتا ہے۔ جیسے ہی 11 بجے تو عدالت میں موجود دربان بینچ کی طرف بڑھنے لگے، جس پر جسٹس بندیال نے انہیں روک دیا اور کارروائی جاری رکھی۔
عبدالطیف آفریدی نے آخر میں یہ استدعا کی ان تمام معاملات کو دیکھنے کے لیے فل کورٹ کا اجلاس بلایا جائے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے عبدالطیف آفریدی کے دلائل ختم ہونے کے بعد ان سے کہا کہ ان کے دلائل فگر انگیز ہیں۔
11 بج کر 15 منٹ پر اٹارنی جنرل خالد جاوید روسٹرم پر آئے اور مختصر دلائل دیے۔ 11 بج کر 19 منٹ پر جسٹس بندیال نے کارروائی سمیٹتے ہوئے کہا کہ مختصر حکم نامہ آج ہی جاری کر دیا جائے۔
وقفے کے دوران صحافی عبدالقیوم صدیقی سے انڈپینڈںٹ اردو نے سوال کیا کہ ان کے اس کیس کے بارے میں کیا تاثرات ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔‘
طویل انتظار کے بعد چار بج کر 14 منٹ پر جج صاحبان عدالت میں آئے اور جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم نامہ پڑھنا شروع کیا۔
حکم نامے کے مطابق عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت ازخود نوٹس کا جو اختیار ہے وہ صرف چیف جسٹس کے پاس ہی ہوگا اور اگر کسی بینچ کو از خود نوٹس لینا ہوگا تو اس کے لیے چیف جسٹس سے منظوری لینا لازمی ہوگا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالت میں موجودہ کیسز بدستور چلتے رہیں گے۔
اس اب صحافیوں کی پٹیشن کو چیف جسٹس کی واپسی پر ان کے سامنے پیش کیا جائے گا اور وہی نیا بینچ تشکیل دیں گے۔
ازخود نوٹس کی درخواست
یاد رہے کہ 20 اگست کو صحافیوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی اسلام آباد اور سیکریٹری داخلہ کو طلب کرتے ہوئے صحافیوں پر ہونے والے حملوں اور مقدمات کی پیش رفت رپورٹس، سیف سٹی پراجیکٹ کی فوٹیج اورخرچے کی تفصیلات طلب کی تھیں۔
اس کے علاوہ وزارت اطلاعات سے ایک سال کے اشتہارات اور اس سے مستفید ہونے والوں کی تفصیلات بھی طلب کیں۔ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کو 26 اگست تک ملتوی کیا تھا۔
سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ صحافیوں کو ہراساں کرنا آئین کے آرٹیکل 9، 11، 13، 14(1)، 14(2)، 15 کے منافی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت اور ایجنسیزمبینہ طور پر صحافیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ عدلیہ تمام شہریوں کے آئینی حقوق کی محافظ ہے۔ صحافیوں کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے نہیں دی جاتیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ازخود نوٹس کے ایک دن بعد قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا کہ کیا سپریم کورٹ میں سوموٹو لینے کا جو طریقہ کار ہے اس پر عمل کیا گیا ہے یا ہر جج اس طرح اپنی عدالت میں سوموٹو لے سکتا ہے یا یہ اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس ہے۔