’میری ماہانہ آمدن 25 ہزار روپے ہے جبکہ اس مہینے بجلی کا بل نو ہزار روپے آیا ہے اور کچن کا خرچہ بھی بڑھ گیا ہے، کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ ملک کی معیشت بہتر ہوئی ہے؟‘
یہ الفاظ ہیں اسلام آباد میں کام کرنے والے ایک حجام محمد صادق کے، جو پاکستان تحریک انصاف حکومت کی تین سالہ کارکردگی سے متعلق جمعرات کی شام منعقدہ تقریب سے وزیر اعظم عمران خان کا خطاب سن رہے تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد صادق نے کہا: ’میری معیشت تو خراب ہی ہوئی ہے ان تین سالوں میں۔ نہیں معلوم ملک کی معیشت کیسے بہتری کی طرف جا رہی ہے؟‘
تحریک انصاف نے ملک میں اپنے اقتدار کے پہلے تین سالوں کے دوران وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی حکومت کی معاشی کارکردگی کو غیر معمولی قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کی تین سالہ کارکردگی سے متعلق وفاقی حکومت نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جبکہ جمعرات کی شام اسلام آباد میں ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا، جس سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ تین سال کے دوران حاصل ہونے والی معاشی کامیابیوں کے علاوہ اہداف کے حصول کے راستے میں آنے والی مشکلات کا ذکر کیا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود ان کی حکومت نے ملکی معیشت کو بری حالت سے نکالا اور وسائل کی کمی کے باوجود پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کے کئی پروگرام شروع کیے۔
پاکستانی عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے انہوں نے احساس پروگرام، انصاف صحت کارڈ، کامیاب پاکستان پروگرام، تعمیراتی شعبے کے لیے امدادی پروگرام اور دوسرے کئی منصوبوں کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے مزید کہا: ’اب پاکستان کی معیشت کو ایسے راستے پر ڈال دیا گیا ہے کہ جس سے آنے والے دنوں میں عام آدمی کی زندگی میں فرق پڑے گا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے متعلق آزاد ماہرین معیشت اور اقتصادی امور پر لکھنے والے صحافیوں سے گفتگو کر کے جاننے کی کوشش کی کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران تحریک انصاف حکومت ملکی معیشت کو بہتر بنانے میں کس حد تک کامیاب رہی؟
معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد زبیر کے خیال میں اس وقت پاکستان کی معیشت کمزور ہو رہی ہے، جس کی بڑی وجہ بجٹ کا خسارہ ہے، جو اس سال 10 فیصد ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی آمدن کم اور اخراجات بہت زیادہ ہیں اور ان خرچوں کو پورا کرنے کے لیے بینکوں سے قرضے لیے جا رہے ہیں۔ ’یہ سب معیشت کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔‘
عام آدمی کی زندگی
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے ملک میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بڑھتی ہوئی فروخت کو ثبوت کے طور پر بیان کیا۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق شہریوں کی زندگی میں آسانیوں یا مشکلات کا اندازہ روز مرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے لگایا جانا چاہیے نہ کہ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے کاروبار سے۔
ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ چینی، آٹے اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے عام شہریوں کی زندگی میں مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
صحافی مہتاب حیدر نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت کے تین سالوں کے دوران ملکی ترقی سست روی کا شکار رہی، جس کے باعث غربت اور بےروزگاری میں اضافہ ہوا۔
صحافی ذیشان حیدر نے اس سلسلے میں کہا کہ موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی مہنگائی پر قابو نہ پانا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’آئندہ عام انتخابات قریب ہیں اور ایسے وقت میں سیاسی حکومتیں زیادہ پاپولر کام کرنے کی کوشش میں رہتی ہیں لیکن تحریک انصاف حکومت کو ایسا کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔‘
ان کے بقول: ’حکومت بڑی خوش نما تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حقیقتاً یہ تصویر اتنی خوش نما نہیں۔‘
ماہر معاشیات حفیظ پاشا کے مطابق کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ مجموعی طور پر قیمتوں میں اضافہ 26 فیصد رہا۔
انہوں نے کہا کہ قیمتوں میں اضافے کے برعکس عام آدمی کی آمدن میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ کرونا وبا کے باعث بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ
وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کی حکومت گذشتہ تین سال میں ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے (برآمدات کا درآمدات سے کم ہونا) کو 29 ارب ڈالرز سے کم کر کے 1.8 ارب ڈالرز تک لانے میں کامیاب رہی ہے۔
تاہم ماہرین معاشیات وزیر اعظم کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں کہ سال رواں کے دوران یہ خسارہ آٹھ سے نو ارب ڈالرز رہنے کا امکان ہے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا: ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے متعلق سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار بھی وزیر اعظم صاحب کے دعوے کی نفی کرتے ہیں۔‘
معاشی امور پر لکھنے والے صحافی مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ رواں سال کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12 سے 13 ارب ڈالرز تک جا سکتا ہے۔
اسلام آباد میں صحافی ذیشان حیدر کا کہنا تھا کہ کرونا وبا کے دوران بھارت، بنگلہ دیش اور دوسرے کئی ممالک میں صنعتیں بند تھیں، جس کے باعث پاکستانی صنعت کاروں کو آرڈرز ملے جس سے یہ خسارہ کچھ کم ہوا۔
’لیکن اب یہ صورت حال بدل رہی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ غیر ملکی آرڈرز کم ہوں گے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پھر سے بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔‘
غیر ملکی ذخائر
تحریک انصاف حکومت پاکستان کے غیر ملکی ذخائر کو 16 ارب ڈالر کی کم ترین سطح سے بڑھا کر 27 ارب ڈالر تک لے جانے کا دعویٰ کرتی ہے۔ تاہم ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا کہ وفاقی حکومت بیرون ملک سے حاصل کیے گئے قرضوں کی رقوم کو بھی غیر ملکی ذخائر کے حصے کے طور پر دکھا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب، یو اے ای، چین اور آئی ایم ایف سے حاصل ہونے والے 22 سے 23 ارب ڈالرز کو بھی غیر ملکی ذخائر کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
ذیشان حیدر کے خیال میں غیر ملکی ذخائر میں اضافے کے باوجود ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی معیشت میں کسی سنجیدہ مسئلے کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں گراوٹ کی ایک وجہ سٹیٹ بینک کے مارک اپ کی شرح میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ غیر ملکی ذخائر میں اضافے کی وجہ بیرون ملک سے وصول ہونے والی ترسیلات بھی ہیں، جو کرونا وبا کے دوران بڑھی تھیں۔
ان کا کہنا تھا: ’وبا کی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کی نوکریاں چلی گئی تھیں جس کے باعث انہوں نے اپنی جمع پونجی واپس بھیجی اور ترسیلات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔‘
مہتاب حیدر کے خیال میں آنے والے سالوں کے دوران غیر ملکی ترسیلات میں کمی کے امکانات واضح طور پر نظر آرہے ہیں، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہوں گے۔
ٹیکسوں کی وصولیوں میں اضافہ
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحریک انصاف حکومت اپنے دور اقتدار کے دوران ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدن میں بھی خاطر خواہ اضافے کا دعویٰ کرتی ہے، تاہم ماہرین اس حقیقت کو بھی دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر فرخ سلیم نے تسلیم کیا کہ تحریک انصاف حکومت زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے میں کامیاب رہی ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ٹیکسوں کی آمدن کو ہمیشہ جی ڈی پی کے تناسب سے دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چار سال قبل پاکستان میں ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن جی ڈی پی کا 11 فیصد تھی، جو گذشتہ تین سال میں کم ہو کر نو فیصد رہ گئی ہے۔
’شاید وزیر اعظم صاحب کو اعداد و شمار ٹھیک طریقے سے بتائے نہیں جاتے جس کی وجہ سے وہ بڑے بڑے دعوے کرتے رہتے ہیں۔‘
زراعت کی ترقی
تحریک انصاف حکومت کے زراعت کے شعبے کو ترقی دینے کے دعووں کے برعکس ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود چینی اور گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے، جبکہ کپاس کی پیداوار آدھی ہو کر رہ گئی ہے۔
انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ایک روز قبل ہی اکنامک کوآرڈینیشن کونسل (ای سی سی) نے چینی اور گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے اور حکومت زراعت کی ترقی کا دعویٰ کر رہی ہے۔
حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ حکومت نے گندم کی قیمت میں اضافہ کیا لیکن اس سے صرف بڑے کاشتکاروں کو فائدہ ہوا جبکہ چھوٹے کسان مستفید نہیں ہو سکے۔