صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں پتوں سے بیڑی بنانے والے چند آخری کاریگر اس کام سے بہت مایوس نظر آ رہے ہیں۔
1980 اور 1990 کی دہائیوں میں لاڑکانہ میں پتے کی بیڑی کے سینکڑوں کارخانے (بھانڈے) تھے، جہاں سے شمالی سندھ کے تمام اضلاع کو بیڑی کی سپلائی کی جاتی تھی۔
تاہم اب بیڑی کے پتے اور تمباکو مہنگے ہونے اور ان کے استعمال میں کمی کے باعث صرف چند کارخانے ہی بچے ہیں۔
لاڑکانہ شہر میں گجن پور چوک کے قریب بیڑی کے دو کارخانے ہیں، جہاں پر کاریگر مختیار لاشاری گذشتہ 40 سال سے کام کر رہے ہیں، مگر وہ اب بہت مایوس ہیں۔
مختیار کہتے ہیں کہ 1980 کے زمانے میں اس کام کا عروج تھا لیکن اب یہ کام ختم ہو رہا ہے اور اس کے آخری چند کاریگر بدحال ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیڑی بنانے کا کام بہت محنت طلب ہے اور 12 سے 13 گھنٹے کام کرنے کی اجرت 350 سے 500 روپے تک ملتی ہے۔
انہوں نے بیڑی بنانے کا طریقہ بتایا کہ 'سب سے پہلے رات بھر پتوں کو پانی میں بھگو کر رکھتے ہیں، صبح انہیں پانی سے نکال کر کارخانے لے جاتے ہیں جہاں انہیں اچھے طریقے سے کاٹ کر پیروں تلے دباتے ہیں تاکہ یہ بالکل سوکھ جائیں۔
’اس کے بعد پتوں کو قینچی سے پالش کرتے ہیں، پھر ان میں تمباکو ڈال کر مروڑنے کے بعد دھاگے سے باندھ دیتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد بیڑی کے منہ کو چاقو نما چیز سے دبا کر باندھتے ہیں، پھر 25 بیڑیوں کا ایک بنڈل بناتے ہیں جو 20 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کام میں 12 سے 13 گھنٹے لگتے ہیں کیونکہ بیڑی کو آہستہ اور آرام سے باندھنا ہوتا ہے تاکہ جب وہ گاہک تک پہنچے تو اسے اطمینان ہو کہ یہ بہت اچھی ہے۔
اس شعبے میں مزید کام نہ ہونے پر کوئی اور کام کرنے کے سوال پر مختیار کا کہنا تھا کہ کوئی اور کام میں بھی مزہ نہیں رہا۔
’حکومت کہتی ہے کہ کم از کم تنخواہ 15 سے 17 ہزار روپے دی جائے، لیکن دکان میں کوئی بھی مالک نہیں چاہے گا کہ اس کے مزدور کو 10 ہزار روپے تنخواہ دی جائے۔
’وہ کہے گا کہ تین، چار ہزار روپے تنخواہ دوں گا۔ اب اتنی تنخواہ میں کیسے گزر بسر ہو؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے تسلیم کیا کہ تمباکو صحت کے لیے نقصان دہ ہے لیکن ساتھ ہی کہا کہ بیڑی کے کچھ فائدے بھی ہیں کیونکہ یہ درخت کے پتے سے بنتی ہے اور ’ پتے کبھی نقصان نہیں دیتے۔‘
’اس کے برعکس سگریٹ نقصان دے گا کیونکہ اس میں فلٹر، کیمیکل اور دیگر چیزیں ہوتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب اس کام کی حالت بہت خراب ہے، بیڑی کے پتے بھارت سے آنا بند ہو گئے ہیں جس کے باعث لوگ یہ کام کہاں سے سیکھیں۔
’ کام بس بالکل ختم ہے۔۔۔۔ اب ٹیکنالوجی آ گئی ہے، ہر چیز میں تبدیلی آ گئی ہے۔ لوگ متبادل استعمال کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ آج سے 30،40 سال پہلے لوگ شوق سے اپنے بچوں کو بیڑی بنانے کا کام سکھاتے تھے، لیکن اب وہ دور ہے نہ ہی اتنی اجرت۔
’اس لیے ہمارے بعد بیڑی کا کاریگر نہیں ہوں گے اور یوں چند سالوں میں اس کام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔‘