یہ 1983 کی بات ہے جب 23 سالہ زاہدہ کو بنگلہ دیش میں ان کے گاؤں سے اغوا کر کے پاکستان سمگل کیا گیا تھا۔
اب ان کی عمر 61 سال ہے جو پاکستان میں رقیہ بیگم کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش کے ضلع جھنیدا میں اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ ملنے کا خواب دیکھنے والی زاہدہ کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں لیکن قدرت آخر کار ان پر مہربان ہو گئی۔
تقریباً چار دہائیوں کے بعد ہفتے کو زاہدہ آخر کار چھ ماہ کا وزٹ ویزا ملنے کے بعد ایمریٹس کی پرواز سے ڈھاکہ روانہ ہوئیں۔
کراچی کے علاقے منگھو پیر میں ایک نجی سکول میں بطور ہیلپر کام کرنے والی زاہدہ نے عرب نیوز کو بتایا: ’میرے لاپتہ ہونے کے باوجود میرے والد ہر عید پر میرے لیے کپڑے خرید کر لاتے رہے۔
’ایک موقعے پر میری بھابھی نے انہیں یاد دلایا کہ میرا کچھ معلوم نہیں اور یہ کہ شاید میں مر چکی ہوں لیکن وہ کہتے کہ ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ میں زندہ ہوں۔‘
جب زاہدہ نے اکتوبر 2018 میں اپنے خاندان سے رابطہ کیا تو اس وقت ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔
پاکستان میں طویل عرصے سے افغانستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے انسانی سمگلنگ کے ذریعے لائے گئے مرد و خواتین اور بچوں سے جبری مشقت لی جاتی رہی ہے۔
لائرز فار ہیومن رائٹس اینڈ لیگل ایڈ (LHRLA) کے صدر ضیا اعوان کےمطابق بنگلہ دیش سے پاکستان میں خواتین کی سمگلنگ کے بارے میں تازہ ترین اعداد و شمار دستیاب نہیں لیکن ایکشن ایڈ پاکستان کی اپریل 2000 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 12 سے 30 سال کی دو لاکھ خواتین اور لڑکیاں 1990 سے 1999 کے درمیان بنگلہ دیش سے پاکستان سمگل کی گئیں۔
ضیا اعوان نے کہا: ’اب بھی ہزاروں بنگلہ دیشی اور روہنگیا عورتیں اور لڑکیاں پاکستان سمگل کی جاتی ہیں۔
ان کے مطابق ان لڑکیوں کا تعلق دور دراز کے دیہاتوں سے ہوتا ہے جن کو اغوا کر کے جسم فروشی، گھریلو ملازمت، جبری شادی یا دیگر مقاصد کے لیے فروخت کر دیا جاتا ہے۔
اعوان نے کہا کہ اکثر خواتین کو گھر واپس جانے کا کبھی موقع نہیں ملا لیکن زاہدہ خوش قسمت رہی ہیں۔
ولی اللہ معروف ایک مدرسے کے طالب علم ہیں جن کو اپنی والدہ کے ذریعے زاہدہ کی کہانی کا علم ہوا جس کے بعد انہوں نے زاہدہ کے خاندان کو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے تلاش کرنے کی کوشش کی۔
معروف نے بتایا: وہ (زاہدہ) ہمارے پڑوس میں نانی کے نام سے مشہور ہیں۔ میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ میں سوشل میڈیا پر اپنے وقت کا مثبت استعمال کرتے ہوئے ان کے خاندان کو تلاش کرنے میں مدد کروں۔ جب میں نے ان کے بارے میں ایک پوسٹ لکھی تو یہ بڑے پیمانے پر وائرل ہو گئی اور ہم آخرکار ان کے خاندان سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘
چین میں کام کرنے والے ایک اور پاکستانی محمد حسیب اللہ راجہ نے بھی ان میں مدد کی۔
راجہ نے عرب نیوز کو بتایا: ’میرے بہت سے بنگلہ دیشی دوست ہیں اور ہمیں مقامی رابطوں کے ذریعے اس خاندان کو ڈھونڈنے میں دو ہفتے لگے۔‘
معروف نے کہا کہ جب مذکورہ خاندان ویڈیو کال پر دوبارہ ملا تو یہ ایک انتہائی جذباتی لمحہ تھا۔
زاہدہ نے انہیں اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ کیسے ایک معمر خاتون انہیں بازار جانے کا لالچ دے کر اپنے ساتھ لے گئی تھی۔
’انہوں نے مجھے کسی نشے سے بے ہوش کر دیا اور جب مجھے ہوش آیا تو میں کسی اور ملک میں تھی۔ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ انہوں نے مجھے خرید لیا ہے۔‘
وہاں سے زاہدہ کو سندھ کے ایک دیہی علاقے کے ایک شخص کو فروخت کیا گیا جو اپنے چچا کے لیے دلہن کی تلاش میں تھے۔
انہوں نے کہا: ’اس کے بعد مجھے سندھ کے ضلع دادو کے رسول گوٹھ نامی گاؤں لے جایا گیا اور ایک بوڑھے سے میری شادی کر دی گئی۔‘
ان کے شوہر نے انہیں اپنے خاندان سے کوئی رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ بنگلہ دیش میں اپنا پتہ بھول گئیں۔
ان کے دو بچے ہیں، ایک بیٹی جس کی شادی پولیو سے متاثرہ ایک شخص سے کر دی گئی اور ایک بیٹا جو منشیات کا عادی بن کر 2014 میں فوت ہوگیا۔
زاہدہ نے کہا کہ وہ اپنی والدہ اور بھائیوں کے ساتھ بنگلہ دیش میں تقریباً تین مہینے تک رہنے کے لیے پرجوش ہیں۔
لیکن وہ اپنی بیٹی اور پڑوسیوں کو، جنہیں وہ اپنا خاندان سمجھتی ہیں، کو چھوڑنے کے لیے بھی تیار نہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان سے مل کر پاکستان واپس آ جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا: ’میں اب ایک پاکستانی شہری ہوں اور میری ایک بیٹی ہے اور اس کا شوہر معذور ہے۔ مجھے ان کے لیے واپس آنا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی والدہ رضیہ بیگم نے فیس بک پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو پیغام میں لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ان کی بیٹی کے بنگلہ دیش کے سفر کے انتظام میں مدد کریں۔
معروف اور ان کے دوستوں نے زاہدہ کی بنگلہ دیش پرواز کے لیے فنڈ جمع کرنے میں بھی مدد کی۔
زاہدہ نے کہا: ’اگرچہ میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ میں ان کے لیے کوئی تحفہ نہ لوں لیکن میں انہیں ایک نیا سوٹ دوں گی کیونکہ میں ایک طویل عرصے کے بعد ان سے مل رہی ہوں۔ ہم ڈھیر ساری باتیں کریں گے اور خوشگوار لمحات کو یاد کریں گے۔‘