پاکستانی خاتون سمیہ ڈیوڈ کو ان کے خاندان نے ایک چینی شہری کو بطور دلہن فروخت کر دیا تھا۔
تاہم جب تندرست سمیہ صرف دو ماہ چین میں گزارنے کے بعد پاکستان واپس پہنچیں تو انہیں پہچاننا مشکل ہو رہا تھا۔
خوراک کی کمی کا شکار سمیہ اتنی کمزور ہوچکی تھیں کہ چلنا مشکل ہو رہا تھا اور ان کی بے ربط گفتگو کو سمجھنا آسان نہیں تھا۔
خبررساں ادارے اے پی کے مطابق سمیہ کے کزن پرویز مسیح نے بتایا کہ خاندان والوں کے پوچھنے پر وہ صرف اتنا کہہ پاتیں کہ’چین میں میرے ساتھ کیا ہوا یہ مت پوچھیں۔‘ چند ہفتے بعد ہی سمیہ جان کی بازی ہار گئیں۔
خاتون کی پراسرار موت سے ان شواہد کو تقویت ملتی ہے کہ بطور دلہن چین بھیجی جانے والی پاکستانی خواتین خاص طور پر مسیحی خواتین کو بدسلوکی اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اے پی کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین کی سمگلنگ میں ملوث افراد نے گذشتہ دو برس کے دوران پاکستان میں غربت کا شکار مسیحی آبادی کو ہدف بنایا۔
انہوں نے غریب خاندانوں کو رقم دے کر انہیں راضی کیا وہ اپنی بیٹیوں کی،جن میں بعض کم سن بھی تھیں، شادی چینی مردوں سے کر دیں۔
چین پہنچنے کے بعد ان خواتین کو الگ تھلک رکھنے کے ساتھ ساتھ استحصال کا نشانہ اور جسم فروشی کے لیے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ یہ خواتین باربار اپنے اہل خانہ سے رابطہ کرکے اپنی واپسی کے لیے اقدامات کی التجا کرتی ہیں۔
کچھ خواتین نے ایسوسی ایٹڈ پریس اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو بتایا کہ ان کے خاوندوں نے بعض اوقات کھانے پینے کے لیے کچھ دینے سے بھی انکار کر دیا۔
اے پی نے ایک فہرست حاصل کی ہے، جس کے مطابق 2018 سے لے کر 2019 کے شروع میں 629 پاکستانی لڑکیوں کو دلہن کے طور پر چینی شہریوں کے ہاتھوں فروخت کیا گیا۔
یہ فہرست پاکستانی تحقیقاتی اداروں نے تیار کی تاکہ خواتین کی سمگلنگ کے نیٹ ورک کو توڑا جا سکے۔
تحقیقاتی عمل سے واقف حکام اور ان خواتین کی مدد کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ سرکاری حکام بیجنگ سے سود مند تعلقات کے متاثر ہونے سے خوف زدہ ہیں، لہٰذا انہوں نے معاملے کی چھان بین کرنے والوں کو خاموش کرا دیا ہے۔
سمیہ کے کزن پرویز مسیح کہتے ہیں کہ’ان غریب لوگوں نے پیسے لے کر اپنی بیٹیاں بیچ دیں اور اب خریدار چین میں جو چاہیں ان خواتین سے سلوک کریں۔ ان خواتین سے کیا سلوک کیا جا رہا ہے یہ دیکھنے کے لیے کوئی وہاں موجود نہیں ۔ یہ ظلم کی انتہا ہے، ہم غریب لوگ ہیں۔‘
سمیہ کی 37 برس کی عمر میں موت سے پتہ چلتا ہے کہ چین سمگل ہونے والی خواتین پر کیا کیا ظلم کیا جاتا ہے۔ خواتین پر ہر قسم کی مدد بند کر دی جاتی ہیں اور انہیں جسمانی اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس سے پہلے اے پی نے ان سات لڑکیوں سے بات کی، جنہیں زبردستی جسم فروشی سے انکار پر ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔
انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ انہیں ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ چین سمگل ہونے والی کم از کم ایک خاتون کو چین میں مار دیا گیا لیکن ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔
سمیہ ڈیوڈ ایک چھوٹے سے مسیحی قبرستان کی ایک گم نام قبر میں دفن ہیں۔ پاکستان کے صوبے پنجاب کے گاؤں مزیکے والے میں واقع اس قبرستان کے ہر طرف جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔
شادی سے پہلے سمیہ فرانسس کالونی کے دو کمروں کے ایک تنگ مکان میں اپنے بھائی اور بیوہ ماں کے ساتھ رہتی تھیں۔ یہ کالونی پنجاب کے شہر گجرانوالہ کے قریب واقع ایک تنگ گلیوں والی ایک گنجان مسیحی آبادی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے پی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ ایک مقامی پادری کے کہنے پر سمیہ کے بھائی نے بروکروں سے رقم لے لی اور بہن کو چینی شہری سے شادی پر مجبور کیا۔ پادری کو پاکستانی خواتین کی سمگلنگ میں ملوث افراد کے ساتھ مل کر کام کرنے کے شبے میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ 2018 کے آخر میں سمیہ کی چینی شہری کے ساتھ شادی کے چند ماہ بعد دونوں چین چلے گئے۔
پرویز مسیح کے مطابق’چین روانگی کے وقت سمیہ مکمل طور پر صحت مند دکھائی دے رہی تھیں۔‘
خاتون کے خاوند کا تعلق چین کے مشرقی، نسبتاً قریبی اور دیہی صوبے شان ڈونگ سے ہے۔ یہ علاقہ بڑے عرصے تک لاقانونیت کا شکار رہ چکا ہے۔ اس قسم کے علاقوں کی رجعت پسند ثقافت میں بیٹے کی پیدائش کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آبادی پر کنٹرول کی سخت چینی پالیسی کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لڑکیاں کبھی دنیا میں آئی ہی نہیں، اس لیے بیرون ملک بیویاں لانا پسند کیا جاتا ہے۔
دو ماہ بعد سمیہ کے بھائی کو ایک فون آیا جس میں انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی بہن کو لاہور ایئر پورٹ سے لے لیں۔ جب بھائی ایئرپورٹ پہنچے تو سمیہ ویل چیئر پر تھیں اور کمزوری کی وجہ سے وہ چل نہیں سکتی تھیں۔
اے پی کے نمائندے نے اپریل میں سمیہ سے ملاقات کی۔ وہ پھر سے فرانسس آباد کالونی میں واقع مکان میں رہ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی شادی کی تصاویر دکھائیں جو چھ ماہ پہلے کھینچی گئی تھیں۔ ایک تصویر میں انہوں نے سفید رنگ کا گاؤن پہن رکھا تھا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور وہ اپنے لمبے اور سیاہ بالوں کے ساتھ صحت مند دکھائی دے رہی تھیں۔
سمیہ مشکل سے ہی تصویر میں نظر آنے والی خاتون دکھائی دے رہی تھیں۔ ان کے گال پچکے ہوئے تھے اور رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ وہ کم وزن کے ساتھ بہت کمزور ہو چکی تھیں اور اپنے حواس میں نہیں تھیں۔
ان کی بات چیت بےربط تھی، جب ان سے چین میں شادی شدہ زندگی کے بارے میں سوال کیا گیا تو اپنی توجہ مرکوز نہ رکھ سکیں۔ ان کے منہ سے غیرمتعلقہ الفاظ نکلے۔
ایک موقعے پر وہ اچانک چائے بنانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بڑبڑاہتے ہوئے چینی کا پوچھا۔ وہ قدم اٹھاتے ہوئے مسلسل بولتی رہیں’میں ٹھیک ہوں۔ میں ٹھیک ہوں۔‘
شادی کی تصاویر میں مختلف دکھائی دینے سے متعلق سوال پر انہوں نے خلا میں گھورنا شروع کر دیا اور آخر میں کہا’ان کے ساتھ کچھ گڑبڑ نہیں ۔‘
انٹرویو کے موقعے پر موجود سمیہ کے بھائی نے کہا ’وہ منحوس ہے۔‘ چند دن بعد یکم مئی کو سمیہ جان کی بازی ہار گئی۔
لاہور میں ڈاکٹر میت خان ترین نے سمیہ کا علاج کیا۔ ڈاکٹر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ’وہ خوراک کی شدید کمی اور کمزوری کا شکار تھیں۔‘
وہ خون کی کمی اور یرقان میں مبتلا تھیں۔ ابتدائی ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ وہ کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہو سکتی تھیں، جن میں اندرونی اعضا کا کام بند کرنا بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر میت نے مزید بتایا انہوں نے سمیہ کے بھائی سے کہا کہ انہیں ہسپتال داخل کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کی موت کے سرٹیفکیٹ میں موت کی وجہ’قدرتی‘لکھی ہوئی ہے۔ ان کے بھائی نے بہن کی موت کے بارے میں پولیس کے ساتھ بات کرنے سے انکار کر دیا۔
جب نومبر میں اے پی نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ سمیہ کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا تھا اور ان کی شادی کی دستاویزات گم ہو چکی ہیں۔
سمیہ کے کزن نے بتایا کہ خاندان سچائی چھپا رہا ہے کیونکہ اس نے خاتون کو دلہن کے طور پر فروخت کیا تھا۔ یونین کونسل کے رکن پرویز مسیح نے کہا کہ’انہوں نے رقم لی تھی اس لیے وہ ہر بات چھپا رہے ہیں۔‘
پاکستانی خواتین کو دلہن کے طور پر فروخت کرنے کے معاملات کی چھان بین کرنے والے ایک اعلیٰ سرکاری عہدے دار نے بتایا کہ خاندان کی خاموشی توڑنا مشکل ہے۔
سرکاری عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ’وہ اپنی بیٹیاں بیچ سکتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں یہ بھی پتہ چل جائے کہ شادی کامیاب نہیں رہی اور لڑکی مشکلات کا شکار ہے تو وہ دوستوں اور خاندان میں بےعزتی سے بچنے کے لیے صورت حال کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔‘