ایک نجی ٹی وی چینل ’نیوز ون‘ پر جمعرات کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی ایک خاتون سے نازیبا گفتگو پر مبنی مبینہ متنازع ویڈیو نشر ہونے کے بعد ملک میں بحث شروع ہو گئی ہے۔
یہ معاملہ سوشل میڈیا پر بھی ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا لیکن خبر نشر ہونے کی کچھ دیربعد نیب ترجمان نے ایک وضاحتی بیان میں متنازع ویڈیو کو’ایک کرپٹ گروہ کے خلاف کارروائی پر پروپیگینڈا‘ قرار دے کر مسترد کردیا۔
بعد ازاں، نیوز ون نے خبر واپس لیتے ہوئے معافی مانگ لی لیکن اس خبر کا خمیازہ چینل کے مالک اور وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے میڈیا پالیسی طاہر اے خان کوعہدے سے ہٹائے جانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
چند دن پہلے روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار جاوید چوہدری نے چیئرمین نیب جاوید اقبال سے ایک ملاقات کا احوال اپنے کالم میں شائع کیا تھا جس میں حکمران جماعت کے بعض وزرا، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے متعلق کرپشن انکوائریوں پر ان کا نقطہ نظر پیش کیا گیا، جس پر سیاسی قائدین نے سخت ردعمل دکھایا تھا۔
چیئرمین نیب نے جاوید چوہدری سے گفتگو میں بھی مافیا کی جانب سےدھمکیوں کا تذکرہ کیا تھا اوراس مبینہ ویڈیو کو بھی اپنے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا قراردیا۔ اس ساری صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں احتساب بیورو کے سربراہان متنازع کیوں رہے ہیں۔
نیب کے متنازع سربراہان
جاوید اقبال متنازع ہونے والے نیب کے پہلے سربراہ نہیں۔ ان سے پہلے پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اُس دور کی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف نے نیب سربراہ قمر زمان چوہدری کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا، جو کسی بھی چیئرمین نیب کے خلاف دائر کیا جانے والا پہلا ریفرنس تھا۔
یہ ریفرنس آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت دائر کیا گیا جوعدلیہ کے ججوں کو اُن کے عہدوں سے ہٹانے کے لیے بھی دائر کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نیب آرڈیننس کے مطابق چیئرمین نیب کو سوائے آئین کے آرٹیکل 209 کی شق 6 کے ان کی مدت ملازمت پوری ہونے سے قبل عہدے سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے قمر زمان چوہدری کو ہٹا کر نیا چیئرمین نیب تعینات کرنے کا حکم دیا تھا مگر وہ چند ماہ بعد اکتوبر2017 میں اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد عہدے سے علیحدہ ہوئے تھے۔
ان کے جانے کے بعد اٹھارہویں ترمیم کے مطابق سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مشاورت سے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو2017 میں تعینات کیا تھا۔
اس سے قبل، پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں سپریم کورٹ نے نیب کے سابق چیئرمین ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کی تقرری کالعدم قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو اس عہدے کے لیے نئی تقرری کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کے مطابق چیئرمین نیب کی تقرری میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کا عمل پورا نہیں کیا گیا جو کہ نیب آرڈیننس کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی ہے۔
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کی درخواست پر یہ فیصلہ سُنایا۔
اس سے پہلے سپریم کورٹ نیب کے سابق چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ دیدار حسین شاہ کی تقرری کو بھی کالعدم قرار دے چکی ہے۔
دیدار حسین شاہ کو بھی سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے تعینات کیا تھا اور ان کی تقرری کو بھی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
نیب کا قیام اور مقاصد
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 1997میں احتساب کمیشن قائم کیا تھا۔
جب جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگا کر اقتدار پر قبضہ کیا تو 1999میں اس ادارے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کا نام دے کر لامحدود اختیارات تفویض کیے گئے۔ اس کے سربراہ کو ہٹانے کا اختیار بھی ریفرنس کے ذریعے صدر مملکت کو دیا گیا۔
اس کے پہلے چیئرمین حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کو تعینات کیا گیا تھا، جن کی کارروائیوں پر سیاسی جماعتوں نے اسے ’سیاسی انتقام کا ادارہ‘ قراردیا تھا۔
ان دنوں اس ادارے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور امیدواروں کو اس وقت کی کنگز جماعت مسلم لیگ ق میں دباؤ ڈال کرشمولیت کے لیے استعمال کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔
یہی وجہ تھی کہ معروف قانون دان اے کے ڈوگرنے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیزشیخ کی عدالت میں نیب کے قیام کو چیلنج کر دیا تھا۔
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ مشرف نے 12 اکتوبر 1999 میں منتخب حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی صدراتی آرڈیننس کے ذریعے احتساب کے نام پرنیب کا ادارہ قائم کیا۔
انہوں نے استدعا کی کہ عدالت نیب کے جاری کیسوں اور انکوائریوں پر حکم امتناعی جاری کرے، جبکہ نیب آرڈیننس 1999 کو آئینی حیثیت نہ ہونے کی بنا پر کالعدم قرار دے۔
عدالت نے نیب اور حکومت کو نوٹس جاری کیے تھے لیکن اس درخواست کا فیصلہ آج تک نہیں سنایا گیا۔
دور حاضر میں بھی اپوزیشن جماعتیں نیب پر جانب داری اور پولیٹیکل انجینئرنگ کے لئے استعمال ہونے کا الزام لگا رہی ہیں۔
نوازشریف، آصف علی زرداری، شہباز شریف سمیت اعلیٰ سرکاری افسران اور کاروباری شخصیات کے خلاف احتساب کے مقدمات اور کارروائیوں کے باعث مقبولیت حاصل کرنے والے اس ادارے کے سربراہ کا ویڈیو سکینڈل آنے پر سوشل میڈیا پر بھی اسے غیر معمولی اہمیت دی جارہی ہے۔
بیشتر شہریوں کی جانب سے اس تنازع کو بھی سیاسی رنگ دیا جارہا ہے، کوئی اس معاملے کو بااثر کرپٹ مافیا کی جانب سے دباؤ کی سازش تو کوئی سیاسی استحکام کے لیے نادیدہ قوتوں کی چال قراردے رہا ہے۔