ملزمان کی شناخت پریڈ متاثرہ خواتین کے لیے اذیت ناک مرحلہ

ہراساں کرنے اور ریپ کے بیشتر مقدمات میں متاثرہ خواتین جیلوں میں جاکر ملزمان کی نشاندہی کے لیے شناخت پریڈ کے عمل سے گزرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔

21  اگست 2021 کی اس تصویر میں یوم آزادی کے موقع پر مینا ر پاکستان پر خاتون ٹک ٹاکر کو ہراساں اور بدسلوکی کرنے کے الزام میں گرفتار ملزمان کو مقامی عدالت میں  پیش کیا جارہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں خواتین کو ہراساں کرنے اور ریپ کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف قانونی کارروائیاں جاری ہیں۔ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قانونی تقاضے ناگزیر ہیں لیکن بیشتر مقدمات میں متاثرہ خواتین جیلوں میں جاکر ملزمان کی نشاندہی کے لیے شناخت پریڈ کے عمل سے گزرنے میں ہچکچاتی ہیں۔

شناخت پریڈ میں خصوصاً ہراسانی کے اجتماعی واقعات میں ملزمان کو شناخت کرنا بھی کسی امتحان سے کم نہیں لیکن قانونی تقاضے پورے کیے بغیر مجرمان کی گرفت بھی آسان نہیں ہے۔

ماہرین قانون کے مطابق ہراسانی یا جنسی تشدد کے واقعات ہوں یا چوری ڈکیتی کا کوئی مخصوص واقعہ شک کی بنیاد پر پکڑے جانے والے ملزمان کی نشاندہی مدعی یا گواہان کو کرنا لازمی ہوتی ہے۔

اور اگر مدعی یا گواہان ملزمان کو شناخت پریڈ میں پہچان نہ پائیں اور پولیس تفتیش میں نشاندہی مطابقت نہ رکھتی ہو تو اس معاملے کی الگ سے تفتیش کرنی پڑتی ہے۔

مدعی یا گواہان کی جانب سے شناخت پریڈ میں ملزمان کی غلط نشاندہی سے بھی کیس پر برا اثر پڑتا ہے اور ملزم باآسانی بری ہوسکتے ہیں۔

اس کی ایک حالیہ مثال 14 اگست کو مینار پاکستان پر پیش آنے والا واقعہ ہے جس میں پولیس نے 150 سے زیادہ افراد کو جیو فینسگ اور ویڈیوز کی مدد سے حراست میں لے رکھا ہے۔

متاثرہ خاتون ٹک ٹاکر کے وکیل نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی موکلہ بدھ (یکم ستمبر) کو جیل جاکر شناخت پریڈ میں ملزمان کی نشاندہی کریں گی۔

حقوق نسواں کے لیے سرگرم کارکن کا کہنا ہے کہ شناخت پریڈ کے دوران ہراسانی یا زیادتی کی شکار خواتین کے لیے دوبارہ ان ہی ملزمان کا سامنا کسی اذیت سے کم نہیں ہے لہذا اس طریقہ کار کو تبدیل ہونا چاہیے۔

شناخت پریڈ کی قانونی اہمیت

قانون دان ریاض حنیف نے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قانون شہادت میں ہراسانی یا جنسی زیادتی جیسے واقعات میں ملوث ملزمان کی نشاندہی قانونی تقاضہ ہوتا ہے، لہذا کسی بھی مدعی یا گواہ کو ملزمان کی نشاندہی کے لیے شناخت پریڈ میں شریک ہونا لازمی ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ متعلقہ مجسٹریٹ کی نگرانی میں جیل کے اندر حراست میں لیے گئے ملزمان کو متاثرہ شخص کے سامنے سےگزارا جاتا ہے جس کی نشاندہی ضروری ہوتی ہے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ ’اگر کوئی غلطی سے کسی غیر متعلقہ شخص کی نشاندہی کر دے تو اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے۔‘

شناخت پریڈ میں مدعی جن ملزمان کی نشاندہی کردے اور پولیس تفتیش میں وہ بے گناہ ثابت ہو تو اس معاملے کی چھان بین بھی دوبارہ ہوسکتی ہے مگر عام طور پر پولیس جیو فینسگ یا فرانزک رپورٹ اور ویڈیو شہادت کی بنیاد پر جن ملزمان کو حراست میں لیتی ہے ان کی نشاندہی آسان ہوتی ہے۔

ریاض حنیف کے بقول مینار پاکستان جیسے واقعات میں ملزمان کی نشاندہی اس لیے مشکل ہوتی ہے کہ اس میں جرم کے مرتکب یا وہاں ویسے ہی موجود افراد پر ایک جیسا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا، لہذا صرف ان کی نشاندہی کرنا ہوگی جو ہراسانی یا دست اندازی کے جرم میں ملوث ہوں گے۔ اگر ملزمان کی درست نشاندہی نہ ہوئی تو عدالت میں ان کے خلاف الزامات ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ان کے خیال میں ایسے کیسز میں پولیس جدید ٹیکنالوجی سے ملزمان کو حراست میں تو لے لیتی ہے لیکن ان پر الزام ثابت کرنے کے لیے شناخت پریڈ میں نشاندہی بھی لازمی ہوتی ہے ورنہ وہ باآسانی رہا ہوسکتے ہیں۔

خواتین کے تحفظات اور مینار پاکستان کے ملزمان کی نشاندہی

لاہور سمیت دیگر شہروں میں پیش آنے والے ہراسانی کے کئی واقعات میں خواتین کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ متاثرہ خواتین کو ایک بار پھر ایسے ملزمان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی وجہ سے وہ پہلے ہی ذہنی اذیت کا شکار ہوتی ہیں۔

تجزیہ کار محمل سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موٹر وے ریپ کیس ہو یا مینار پاکستان والا واقعہ، اس میں ملوث ملزمان کی نشاندہی کے لیے شناخت پریڈ میں شرکت خواتین کے لیے ایک اور اذیت کا باعث بنا اور دوبارہ ان ہی ملزمان کا سامنا کرنا ان کے لیے تکلیف دہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ شناخت پریڈ قانونی تقاضہ ضرور ہے مگر سماجی طور پر بیشتر خواتین اس قسم کی کارروائیوں کا حصہ بننے سے اجتناب کرتی ہیں۔

بقول محمل: ’ایک خاتون سے ہراسانی یا زیادتی کا واقعہ پیش آجائے تو پہلے تو اس کے لیے شکایت درج کرنا ہی بڑا مسئلہ ہوتا ہے، دوسرا یہ کہ جب دوران تفتیش ان سے عجیب و غریب سوال کیے جاتے ہیں تو رہی سہی کسر شناخت پریڈ جیسی مشق کے دوران نکل جاتی ہے جہاں متاثرہ خاتون کو یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ فلاں نے یہ کیا، فلاں نے وہ کیا، اس نے پکڑا، اس نے چھوا۔ یہ سب ایک عورت کے لیے ہمارے معاشرے میں تکلیف دہ عمل ہے۔‘

ان کے خیال میں: ’ایسی کارروائی کی بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سےملزمان کو حتمی طور پر ملزم ٹھہرایا جانا چاہیے تاکہ متاثرہ خواتین کارروائی کے عمل سے خوفزدہ نہ ہوں اور باآسانی اس قسم کے جرائم کے خلاف آواز بلند کر سکیں، لیکن یہ تب ہی ہوگا جب انہیں احساس تحفظ دے کر شرمندگی یا اذیت کا باعث بننے والی کارروائیوں سے دور رکھا جائے۔‘

مینار پاکستان واقعے کی متاثرہ ٹک ٹاکر عائشہ اکرام کے وکیل اویس عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عدالتی حکم پر اس واقعے میں ملوث حراست میں لیے گئے ملزمان کی شناخت گذشتہ ہفتے ہونا تھی لیکن مدعی کی درخواست پر شناخت پریڈ کی تاریخ آگے بڑھائی گئی اور اب یہ بدھ (یکم ستمبر) کو کیمپ جیل میں ہوگی۔

اویس عباسی نے کہا کہ ’عائشہ کی شناخت پریڈ میں شرکت نہ کرنے سے متعلق خبریں بے بنیاد ہیں، وہ اپنی مرضی سے شناخت پریڈ میں ملزمان کی نشاندہی کے لیے جانا چاہتی ہیں۔‘

ان کے مطابق ملزمان کی نشاندہی کے لیے قانونی طریقہ کار اپنانا لازمی ہے، اس لیے تفتیش میں وہ پولیس سے مکمل تعاون کر رہی ہیں۔

اویس عباسی کے مطابق پولیس کو ایسی مزید ویڈیوز ملزمان کے موبائل فونز سے حاصل ہوئی ہیں جن میں وہ لوگ باآسانی پہچانے جا سکتے ہیں جو دست درازی، کپڑے پھاڑنے یا چھیڑ چھاڑ میں ملوث تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جیو فینسگ اور فرانزک رپورٹ سے بھی ملزمان کی شناخت ہوچکی ہے لیکن شناخت پریڈ میں یہ نشاندہی لازمی ہے کہ وہاں کون کون انہیں بچا رہا تھا اور کون تشدد یا ہراساں کررہا تھا۔

وکیل اویس عباسی نے بتایا کہ مدعی کو مکمل طور پر یاد ہے اور ویڈیوز سے بھی وہ نشاندہی کرچکی ہیں کہ اصل ملزمان کون ہیں اور بچانے والے کون ہیں، لہذا شناخت پریڈ قانونی طور پر لازمی ہے اور وہ اس کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین