اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے موقع پر جج عامر فاروق جو خوشگوار موڈ میں دکھائی دے رہے تھے کہ اچانک کچھ ایسا ہوا کہ ان کا موڈ تبدیل ہو گیا۔
ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کر رہا تھا۔
ججز 12 بجکر 50 منٹ پر کمرہ عدالت تشریف لائے لیکن اس وقت تک نہ تو ن لیگ کے وکیل امجد پرویز عدالت میں موجود تھے اور نہ ہی درخواست گزار خود موجود تھے۔
اس موقع پر مریم نواز اور کیپٹن صفدر کا نام پکارا گیا لیکن وہ کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھے، جس پر عدالت نے پوچھا کہ درخواست گزار کہاں ہیں؟
عدالت کے سوال پر جونیئر وکلا نے جواب دیا کہ وکیل راستے میں ہیں۔ عدالت نے پوچھا کہ درخواست گزار خود بھی نہیں آئے؟ تو اس پر ان وکلا نے بتایا کہ وہ بھی پہنچنے والے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق جو آغاز میں کافی خوشگوار موڈ میں تھے ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ ’یہ غلط بات ہے کہ عدالت آ جائے اور درخواست گزاروں کے وکیل کمرہ عدالت میں موجود ہی نہ ہوں۔‘
اس پر نیب نے مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی عدم موجودگی پر ان کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کر دی۔ جس پر عدالت نے بھی کہا کہ ’کیا مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی عدم حاضری پر سخت آرڈر جاری کر دیں؟ بتائیں کیا کرے قانون میں کیا گیا کہا ہے؟
’ہم نے مقررہ وقت اسی وجہ سے دیا کہ درخواست گزار پیش ہوں۔‘
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ضمانت منسوخ کی جائے کیونکہ اس کیس میں یہ امجد پرویز کی ابھی تک کی دسویں التوا ہے۔
اسی اثنا میں مریم نواز کمرہ عدالت میں گہرا نیلا سوٹ پہنے، با آواز بلند سب کا حال احوال پوچھتیں داخل ہوئیں۔ بظاہر ان کو معلوم نہیں تھا کہ معزز جج صاحبان کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت کا ’احترام ملحوظ خاطر نہ رکھنے‘ پر کمرہ عدالت میں موجود ہولیس اہلکاروں نے فوری مداخلت کی اور کہا کہ ’خاموش ہو جائیں عدالت موجود ہے۔‘
مریم نواز اپنی نشست پر براجمان ہوئیں۔ ان سے قبل ن لیگ کے رہنما محمد زبیر اور عظمیٰ بخاری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
جسٹس عامر فاروق جو اس سے قبل کافی خوشگوار موڈ میں تھے عدالت کا احترام ملحوظ خاطر نہ رکھنے پر کافی برہم ہو گئے اور کہا کہ ’پہلے تو نہیں لیکن اب یہ کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر ہو گا اور آج نہیں ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان کو یہ نہیں پتہ کہ کمرہ عدالت میں کیسا رویہ اختیار کرنا ہے۔‘
مریم نواز سمیت تمام رہنما خاموش بیٹھے رہے۔ پھر مریم نواز دو منٹ ہی کمرہ عدالت میں رکیں اور سماعت ملتوی ہونے پر باہر چل دیں۔ جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی، جب کہ عدالت نے کیس کی سماعت آٹھ ستمبر تک ملتوی کر دی۔
’حکومت نے عوام دشمنی کی مثال قائم کر دی ہے‘
عدالت کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’میرا ایک ہی بیٹا ہے اور میں اس کے نکاح میں شرکت کیلئے نہیں جا سکی۔‘
مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے عوام دشمنی کی مثال قائم کر دی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے نکاح میں جانے کی اجازت مانگی نہ مانگ سکتی ہوں۔‘
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ نا اہل اور مسلط کردہ حکومت ہے۔ احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے۔ ظلم کو سہنا بھی زیادتی ہے۔‘
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی سے متعلق سوال پر مریم نواز نے جواب دیا کہ ’جب مسلم لیگ ن کہے گی میاں صاحب واپس آجائیں گے۔ اگر مگر کرنے والوں کو کہوں گی کہ نوازشریف ملک واپس آئیں گے۔‘
مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ ’ساڑھے تین سال میں کسی نے یہ خبرسنی کہ چینی، آٹا سستا ہوگیا؟ ملک میں پی ٹی آئی کی ناجائز اور نااہل حکومت ہے۔ حکومت کو پرواہ ہے تو بس اس بات کی کہ کیسے اپوزیشن کو تنگ کرنا ہے۔‘