افغان طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے اعلان کے بعد زیادہ تر کابینہ ممبران کے ناموں کا بھی اعلان کردیا گیا ہے۔
کابینہ میں دیگر افراد سمیت چار ایسے ممبران بھی موجود ہیں جنہیں بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاموبے میں ’ماورائےعدالت‘ قید میں رکھا گیا تھا۔ 2014 میں امریکہ نے طالبان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا ایک معاہدہ کیا تھا جس کے بعد طالبان نے ایک امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے اپنے پانچ قیدی رہنما رہا کروائے تھے۔
عبدالحق واسق، انٹیلی جنس چیف
عبدالحق واسق افغانستان کے صوبہ غزنی میں 1971 میں پیدا ہوئے اور وہ گوانتانامو بے میں تقریباً 12 سال قید رہے، تاہم 2014 میں انہیں چار دیگر ساتھیوں سمیت جیل سے رہا کردیا گیا تھا اور اب وہ طالبان کے قطر دفتر میں مقیم ہیں۔
واسق کی رہائی کے بدلے طالبان کی قید میں موجود ایک امریکی سپاہی بوی برگداہل کو رہا کیا گیا تھا۔ امریکہ نے واسق کو القاعدہ کے ساتھ مبینہ تعلقات کی بنا پر گرفتار کیا تھا۔
عبدالحق واسق اور گوانتامو سے رہا ہونے والے ان کے دیگر چار ساتھی امریکہ کے ساتھ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے۔
عبدالحق واسق کے حوالے سے وکی لیکس پر شائع امریکی وزارت دفاع کی کچھ دستاویزات میں بھی تفصیلات سامنے آئی تھیں، جن کے مطابق گوانتانامو جیل میں اس وقت قید عبد الحق واسق نے ابتدائی دینی تعلیم 1984 میں خیبر پاس کے قریب ایک مدرسے سے حاصل کی اور بعد میں کوئٹہ کے ایک مدرسے میں داخلہ لیا۔
دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واسق غزنی واپس چلے گئے اور وہاں پر ایک مسجد میں امام کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
خیراللہ خواہ، وزیر اطلاعات
خیر اللہ سید ولی بھی عبدالحق واسق کے ساتھ گوانتانامو میں قید رہے، جنہیں ایک امریکی فوجی کے بدلے 2014 میں رہا کیا گیا تھا۔
خیراللہ طالبان کے دور حکومت میں وزیر داخلہ تھے اور افغانستان کے اہم صوبے ہرات کے گورنر بھی رہے ہیں۔ خیر اللہ امریکہ کے ساتھ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے رکن تھے۔
خیر اللہ نے طالبان تحریک بننے کے کچھ عرصے بعد 1994 میں اس میں شمولیت اختیار کی تھی اور بعد میں طالبان حکومت میں ایک اہم رہنما کے طور پر ابھرے تھے۔
خیر اللہ صوبہ قندھار میں 1967میں پیدا ہوئے اور وہ حامد کرزئی کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔
اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق خیر اللہ نے امریکی تفتیشی افسران کو گرفتاری کے بعد بتایا تھا کہ وہ کرزئی کے دوست ہیں اور امریکہ کے افغانستان میں فوجی دستے داخل ہونے کے بعد ہتھیار ڈالنے اور اگلی حکومت میں جگہ بنانے کے خواہاں تھے۔
خیر اللہ بعد میں پاکستان میں پکڑے گئے تھا، جب وہ افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
ملا فضل مظلوم ، معاون وزیر دفاع
محمد فضل صوبہ اروزگان میں 1967 میں پیدا ہوئے۔ فضل بھی ان پانچ طالبان رہنماؤں میں شامل تھے، جنہیں 2014 میں ایک امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے گوانتاموبے سے رہا کیا گیا تھا۔
محمد فضل طالبان دور میں آرمی چیف رہے اور شمالی اتحاد اور امریکی فوجیوں کے خلاف بھرپور طریقے سے لڑتے رہے۔ محمد فضل رہائی کے بعد طالبان کے قطر دفتر میں رہے اور انہیں امریکہ کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کا رکن بنایا گیا۔
ملا نوراللہ نوری، وزیر سرحدات و قبائلی امور
ملا نور اللہ نوری کو بھی گوانتاموبے سے اپنے پانچ ساتھیوں سمیت امریکی فوجی کے رہائی کے بدلے رہا کر دیا گیا تھا۔
نوری کا تعلق افغانستان کے صوبہ زابل سے ہے اور اسی صوبے کے شاجوہی گاؤں میں 1967 میں پیدا ہوئے۔
نوراللہ نوری کو امریکہ نے 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد گرفتار کیا تھا۔ وکی لیکس پر موجود گوانتانامو بے کے قیدیوں کے حوالے سے تفصیل کے مطابق نوراللہ نوری طالبان کے دور حکومت میں صوبہ بلخ اور لغمان کے گورنر رہے تھے جب کہ امریکہ نے انہیں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
نوراللہ نوری طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد شمالی اتحاد کے کمانڈر رشید دستم سے بھی لڑے تھے اور شمالی صوبوں کی طرف سے نوراللہ طالبان کے کمانڈر تھے۔
وکی لیکس پر موجود مزید معلومات کے مطابق نوراللہ نے ابتدائی دینی تعلیم آبائی گاؤں سے حاصل کی تھی اور ان کے والد مقامی مسجد میں امام تھے۔
نوراللہ نوری ابتدائی دنوں میں اپنے والد کے ساتھ کھیتی باڑی کے پیشے سے وابستہ تھے اور گاؤں میں ٹیلر کے ہنر سے بھی وابستہ رہے۔
نوراللہ نوری 1999 میں کابل گئے تھے اور وہاں پر طالبان سیکورٹی بیس کے انچارج ملا یونس کے سیکورٹی گارڈ بھرتی ہوئے۔
ایک مہینے بعد وہ جلال آباد گئے اور وہاں پر اس وقت جلال آباد کے گورنر مولوی کبیر کے ساتھ بطور سیکورٹی گارڈ کام شروع کیا اور آٹھ مہینے تک وہ کام کرتا رہے۔ بعد میں صوبہ بلخ چلے گئے اور وہاں پر 18 مہینے کے بعد بلخ کے گورنر تعینات کیے گئے۔
جنرل دستم کی جانب سے بلخ صوبے میں مبینہ قتل عام کے دوران نوراللہ نوری بلخ کے گورنر تھے جو بعد میں جنرل دستم کے سامنے سرینڈر ہوئے تھے۔
طالبان کی عبوری حکومت کا اعلان
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تقریباً تین ہفتے انتظار کے بعد افغانستان میں اپنی حکومت کی عبوری کابینہ کا اعلان کر دیا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کابل کے سرکاری میڈیا مرکز میں پریس کانفرنس سے خطاب میں نئی کابینہ کا اعلان کیا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کابینہ کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ محمد حسن اخوند ریاست کے سربراہ ہوں گے جب کہ ملا عبدالغنی برادر ڈپٹی سربراہ ریاست کے فرائض سرانجام دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذبیح اللہ مجاہد نے اس موقع پر کہا کہ ملک پر ایک شعبے میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’امارات اسلامی‘ نے فیصلہ کیا کہ ضروری شعبے کو کام کرنے کے لیے ایک سرپرست کابینہ کا اعلان کیا جائے۔
اعلان کردہ افغان کابینہ میں مولوی محمد یعقوب وزیرِ دفاع، سراج الدین حقانی وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالیں گے۔
ذبیح اللہ مجاہد نئی کابینہ میں معاون وزیر اطلاعات کی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔
ان کے علاوہ مولوی امیر خان متقی وزیر خارجہ، ملا ہدایت بدری وزیر خزانہ، ملا خیر اللہ خیر خواہ وزیر اطلاعات، قاری دین محمد وزیر اقتصاد،مولوی نور محمد ثاقب وزیر حج و اوقاف اور مولوی عبدالحکیم وزیر عدلیہ ہوں گے۔
افغان کابینہ کے دیگر ارکان کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: ملا نوراللہ نوری وزیر برائے قبائلی امور، شیخ محمد خالد وزیر برائے دعوت و ارشاد، حاجی محمد عیسیٰ وزیر پٹرولیم، ملا حمید اللہ اخوندزادہ وزیر ٹرانسپورٹ، مولوی نجیب اللہ حقانی وزیر برائے انٹیلجنس، حاجی محمد ادریس سرپرست افغانستان بینک، شیر محمد عباس معاون وزیر خارجہ ہوں گے۔