افغانستان میں اس وقت طالبان رہنماؤں کے مطابق ان کی ’اسلامی امارات‘ نافذ ہو چکی ہے اور متحرک ہے۔
کابل میں افغان وزارت اطلاعات و ثقافت کی جانب سے غیر ملکی صحافیوں کو رجسٹریشن کے لیے دیے جانے والے اجازت نامے پر ’اسلامی امارت‘ لکھا گیا ہے اور اکثر سرکاری عمارات پر طالبان کے اسلامی امارت کا سفید جھنڈا لہرا رہا ہے۔
روس، چین، امریکہ اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے اس سال مارچ میں کہا تھا کہ وہ اسلامی امارت کی بحالی کی حمایت نہیں کریں گے۔ طالبان نے ’ٹرائیکا پلس‘ کے اس مطالبے کو بظاہر مسترد کرتے ہوئے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا تھا۔ اسلامی امارت کا اعلان ہونے سے طالبان حکومت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرانے میں رکاوٹ پیش آ سکتی ہے۔
پاکستان نے 1996 میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا، لیکن شاید وہ اس مرتبہ جلد بازی میں فیصلہ نہ کرے اور دوست ممالک سے صلاح مشورے کے بعد ہی کوئی فیصلہ سامنے آئے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں بدھ کے دن ایک ورچول اجلاس بھی منعقد ہو رہا ہے جس میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک آپس میں مشاورت کر رہے ہیں۔
طالبان کے روس کے ساتھ اس وقت اچھے مراسم اور تعلقات ہیں لیکن روسی وزیر خارجہ سرگے لارووف نے پیر کو کہا کہ اگر طالبان ایک وسیع البنیاد حکومت بناتے ہیں تو روس اس کو تسلیم کرلے گا۔ رپورٹوں کے مطابق چین نے بھی یہی موقف اپنایا ہے۔
15 اگست کو کابل میں طالبان کی امد سے اب تک حکومت کا نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان میں غیر یقینی کی صورت حال ہے۔ کابل شہر میں صرف چند ٹریفک پولیس والے نظر آتے ہیں اور باقاعدہ پولیس موجود نہیں۔
ہر نظام طالبان خود غیر رسمی طور پر چلا رہے ہیں۔ مسلح طالبان کو مروجہ قوانین اور اصولوں کی آگاہی نہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہو سفارت خانوں کی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو بھی روکتے ہیں اور کاغذات کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
طورخم سرحد کی افغان جانب اب طالبان کے زیر کنٹرول انٹیلی جنس یعنی این ڈی ایس والوں نے اپنا نظام بنا دیا ہے اور مجھ سمیت برطانوی، فرانسیسی اور ترک صحافیوں کو تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کے لیے روکے رکھا۔
اہم عہدوں جس میں رئیس الوزرا (کابینہ کے سربراہ یا وزیراعظم)، وزیر خارجہ، وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی سے متعلق آرا مختلف تھیں، اور یہی وجہ ہے کہ طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے عہدے داروں کے ناموں کے اعلان میں تاخیر ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملا یعقوب کا موقف تھا کہ کابینہ کے ارکان کی منظوری امیر یعنی ملا ہبت اللہ سے لی جائے گی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ملا ہبت اللہ کے ساتھ رابطہ اب بھی آسان نہیں اور پیغام رسانی کے لیے ایک قاصد استعمال ہوتا ہے۔
ایک طالبان رہنما کے مطابق حکومت کے افتتاحی پروگرام کے لیے امیر شیخ ہبت اللہ نے افغانستان کے 34 صوبوں سے ایک قومی سربراہ اور دو دینی عالموں کو دعوت دینے کے لیے کہا ہے، جس پر کام ہو رہا ہے۔
رئیس الوزرا یعنی وزیرِ اعظم کے لیے ملا حسن اخوند کے علاوہ مضبوط امیدواروں کی فہرست میں ملا عبدالغنی برادر، سراج الدین حقانی اور ملا یعقوب بھی شامل تھے، لیکن امیر نے ان میں سے ملا حسن کا انتخاب کیا۔
جس طرح کے کئی مواقع پر انہوں نے فیصلے کیے ہیں جو طالبان کے غیر متوقع بھی تھے جس میں ملا یعقوب کو طالبان فوجی کمیشن کا سربراہ بنانا بھی تھا۔