طالبان کی حکومت میں کون کون شامل ہو گا؟

ممکنہ طور پر افغانستان کی باگ ڈور سنبھالنے والے طالبان رہنماؤں کا مختصر تعارف

افغان طالبان  کے سربراہ مولوی ہبت اللہ اخوند زادہ (دائیں) اور طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر (بائیں) - (تصاویر:  اے پی/ طالبان)

افغان طالبان کے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد وہ ’امارت اسلامی‘ کے نام سے ممکنہ حکومت بنانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ کابل میں طالبان نے اپنا ملٹری یونٹ بھی ’بطور سکیورٹی‘ تعینات کر دیا ہے جبکہ کابل کے صدارتی محل سے طالبان رہنماؤں کی ایک ویڈیو بھی ریلیز کی گئی ہے۔

طالبان کے دوحہ میں سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کی جانب سے بھی ایک ویڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے کامیابی سے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے طالبان جنگجوؤں کو ہدایت کی کہ وہ ملک کی سکیورٹی اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

طالبان کی جانب سے افغانستان پر حکومت کرنے کا باضابطہ اعلان تو نہیں کیا گیا ہے لیکن  افغانستان میں چاہے طالبان کی حکومت ہو یا اس سے پہلے ادوار میں، ان کا حکومت کے ساتھ ایک متوازن نظام چلتا رہا ہے یعنی جس طرح حکومتی نظام میں وزرا، گورنرز اور دیگر عہدیدار ہوتے ہیں، اسی طرح طالبان کے بھی مختلف صوبوں میں اپنے گورنرز اور ساتھ میں ایک کابینہ بھی ہوتی ہے، جو مختلف سیکٹرز کے معاملات کو دیکھتے تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ طالبان کے وہ 10 رہنما کون ہیں جو ممکنہ طور پر مستقبل میں افغانستان پر حکمرانی کریں گے اور افغان حکومت کے معاملات کو دیکھیں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس رپورٹ میں ان رہنماؤں کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔ اس رپورٹ کے لیے معلومات مختلف بین الاقوامی جرائد، میڈیا رپورٹوں اور افغان امور کے ماہرین سے بات کرکے حاصل کی گئی ہیں۔

 

1۔ مولوی ہبت اللہ اخوند زادہ، سربراہ افغان طالبان

افغان طالبان اپنے سربراہ کو ’امیر المومنین‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ امیر المومنین کی اصطلاح اسلام کے ابتدائی دور کے حکمرانوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ مختلف جہادی تنظیموں میں امیر المومنین کی اصطلاح عام ہے۔

افغان طالبان کے موجودہ سربراہ مولوی ہبت اللہ اخوندزادہ کو  2016 میں طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کی 2016 میں  کوئٹہ میں ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد سربراہ بنایا گیا تھا۔ اس سے پہلے ہبت اللہ طویل عرصے تک طالبان کے  سینیئر جج کے عہدے پر فائز رہے اور طالبان کی جانب سے فتوے بھی ہبت اللہ کی جانب سے جاری کیے جاتے تھے۔

تقریباً 60 سالہ مولوی ہبت اللہ طالبان کے حلقوں میں ایک مذہبی رہنما کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 80کی دہائی میں سویت یونین کے خلاف جنگ میں ملا عمر کے نائب کے طور پر حصہ لیا تھا اور ان کا شمار طالبان کے بانی اراکین میں کیا جاتا ہے۔ بعد میں وہ طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کے نائب بھی رہے ہیں۔

مولوی ہبت اللہ کا تعلق افغانستان کے صوبہ قندھار کے ایک پشتون قبیلے سے ہے۔ سویت  یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد 1990 میں انہوں نے طالبان کی تحریک میں شمولیت اختیار کی تھی۔ فروری 2021 میں میڈیا کے کچھ اداروں نے یہ خبریں بھی چلائی تھیں کہ ملا ہبت اللہ پاکستان میں ایک حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں، تاہم ان رپورٹس کی طالبان کی جانب سے تردید کردی گئی تھی۔

طالبان کے سابق دور حکومت میں طالبان کے سربراہ ملا عمر افغانستان کے صدر کے حیثیت سے کام کرتے تھے۔ اب اگر طالبان اسی طریقہ کار پر چلیں گے تو ممکنہ طور پر مولوی ہبت اللہ اخوند زادہ افغانستان کے آنے والے صدر ہوں گے، تاہم طالبان اس عہدے کو صدر نہیں بلکہ 'امیر المومنین' کہتے ہیں۔

طالبان کے حکومتی ڈھانچے میں طالبان کے سربراہ یا امیر ملٹری، سیاسی اور مذہبی معاملات کے سپریم لیڈر ہوتے ہیں اور تمام معاملات سربراہ کی ہدایت یا حکم کے بغیر نہیں چلائے جاسکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان امور کے ماہر طاہر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ  90 کی دہائی میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو جتنے بھی  امور تھے، ان کی سربراہی ملا عمر کر رہے تھے اور ان ہی کے حکم نامے پر تمام عہدوں پر طالبان رہنماؤں کو تعینات کیا گیا تھا۔

اسی طرح طالبان کے سربراہ اور نائب سربراہان کے علاوہ طالبان کی اپنی ایک کونسل بھی ہوتی ہے، جسے 'رہبر شوریٰ' کہتے ہیں، جو مختلف معاملات پر مشورے کرکے فیصلے کرتی ہے۔ عام زبان میں اسے ہم وزرا کی ایک کابینہ کہہ سکتے ہیں۔

رہبر شوریٰ کے تحت مختلف کمیشنز (یا دوسرے لفظوں میں وزارتیں یا انتظامی محکمے) ہوتے ہیں، جو ملک کے مختلف معاملات جیسا کہ سیاسی، ملٹری، تعلیمی، مذہبی اور دیگر معاملات دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دو درجن سے زائد کمیشنز بھی کام کرتے ہیں۔

ان کمیشنز کے تحت دفاتر اور محکموں میں تعیناتیاں کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر طالبان کے ملٹری کمیشن مختلف صوبوں میں ملٹری کمانڈرز اور گورنرز تعینات کرتے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی کمیشن مختلف صوبوں میں تعلیمی محکموں کے سربراہان تعینات کرتے ہیں۔

2۔ سراج الدین حقانی

حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی  طالبان سربراہ کے ڈپٹی یا نائب امیر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ سراج الدین حقانی، حقانی نیٹ ورک کے سرکردہ رہنما ہیں۔ اس تنظیم کو امریکہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور ان کے سر کی قیمت 50 لاکھ ڈالر لگائی گئی ہے۔

حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی سوویت یونین کے ساتھ جنگ میں لڑ چکے ہیں۔ امریکی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے مطابق سراج الدین حقانی 2008 میں کابل میں ایک ہوٹل پر حملے میں امریکہ کو مطلوب ہیں، جس میں امریکی شہری سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکہ کی  سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق  ممکنہ طور پر 45 سالہ سراج الدین حقانی کو ان کے والد کی وفات کے بعد حقانی نیٹ ورک کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ پہلی مرتبہ حقانی نیٹ ورک کا نام 1975 میں سامنے آیا تھا۔

سراج الدین حقانی مولوی ہبت اللہ کے نائب کے طور پر کام کرتے ہیں اور افغانستان کے مشرقی صوبوں کی نگرانی کرتے ہیں، لیکن وہ بہت کم منظر عام پر آئے ہیں۔ گذشتہ سال سراج الدین حقانی کا نیویارک ٹائمز میں ایک کالم بھی چھپا، جس پر پوری دنیا میں کچھ لوگوں نے اخبار پر تنقید جبکہ بعض نے دفاع کیا تھا۔

3۔ ملا محمد یعقوب

مولوی محمد یعقوب طالبان کے بانی سربراہ ملا عمر کے  بڑے بیٹے ہیں، جن کی عمر تقریباً 35 سال ہے اور وہ افغان طالبان کے سربراہ ہبت اللہ کے نائب یعنی ڈپٹی کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مولوی محمد یعقوب کا حال ہی میں ایک آڈیو پیغام بھی سامنے آیا تھا جس میں وہ طالبان جنگجوؤں کو ہدایات دے رہے تھے جبکہ اس کے علاوہ ابھی تک مولوی یعقوب منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔

محمد یعقوب افغان طالبان کے ملٹری چیف بھی ہیں اور جتنے بھی جنگجو افغانستان میں لڑتے ہیں، ان کی سربراہی میں ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ امریکہ کے ایک ادارے فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹ  کی ایک رپورٹ کے مطابق ملا یعقوب نے  2015 میں طالبان کے سابق سربراہ مولا اختر منصور کی بطور سربراہ تعیناتی کی مخالفت بھی کی تھی، تاہم بعد میں انہیں طالبان کی کمانڈ میں اہم عہدہ دیا گیا تو انہوں نے اختر منصور کو بطور سربراہ مان لیا۔

4۔ ملا عبدالغنی برادر، طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ

ملا عبد الغنی برادر افغانستان کے صوبے اروزگان میں 1968 میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق پشتونوں کے درانی قبیلے سے ہے۔ ملا برادر نے سویت یونین کے خلاف جنگ میں بھی حصہ لیا تھا۔ ملا برادر نے 1992 میں ملا عمر کے ساتھ طالبان کی بنیاد رکھی تھی، جس کے لیے قندھار میں ایک مدرسہ کھولا گیا تھا۔ طالبان کے پہلے امیر، ملا عبدالغنی برادر کے داماد تھے۔

ملا عبد الغنی برادر طالبان کی 1996 سے 2001 تک حکومت میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ طالبان حکومت کا تختہ الٹنے کے وقت وہ افغانستان کے وزیر دفاع کی کرسی پر فائز تھے، بعد میں انہوں نے پاکستان میں پناہ لی تھی۔  ملا عبد الغنی برادر کو 2010 میں پاکستان کے شہر کراچی سے پاکستانی حکام نے گرفتار کیا اور 2018 میں جب دوحہ میں افغان طالبان اور امریکہ کے مابین امن مذاکرات شروع ہو رہے تھے، تو اس سے پہلے انہیں رہا کردیا گیا تھا۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے اس وقت بتایا تھا کہ ملا برادر کو  ایک اعلیٰ سطح کی گفت و شنید کے بعد دوحہ میں طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کرنے سے پہلے رہا کیا گیا تھا۔

5۔ عبدالحکیم حقانی، امریکہ کے ساتھ طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ

عبد الحکیم حقانی افغان صوبہ قندھار میں 1967 میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق قندھار کے ایک پشتون قبیلے سے ہے۔ عبد الحکیم طالبان کے  ’چیف جسٹس‘ بھی رہے ہیں۔عبد الحکیم خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں واقع مدرسہ حقانیہ سے فارغ التحصیل ہیں جبکہ بعد میں انہوں نے افغانستان کے صوبہ ہلمند میں ایک مسجد کے امام کے طور پر بھی فرائض انجام دیے۔

عبدالحکیم کا شمار طالبان کے سخت نظریات رکھنے والے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ مختلف تحقیقی مقالوں کے مطابق عبد الحکیم طالبان سربراہ ہبت اللہ کے قریبی  اور اعتماد کرنے  والے ساتھی مانے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کی سربراہی بعد میں عبدالحکیم حقانی کو دے دی گئی تھی۔

6۔ شیر محمد عباس ستانکزئی ، طالبان قطر دفتر کے سابق سربراہ

عباس ستانکزئی افغان صوبہ لوگر میں 1963 میں ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئے اور بعد میں زیادہ عرصے تک کابل میں مقیم رہے۔ عباس ستانکزئی طالبان کے سابق دور حکومت میں وزیرخارجہ تھے جبکہ اس دور میں ستانکزئی پبلک ہیلتھ کے وزیر بھی رہے ہیں۔

عباس ستانکزئی بعد میں طالبان کے قطر دفتر میں گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ مقیم رہے اور کچھ عرصہ کے لیے قطر دفتر کے سربراہ بھی رہے لیکن 2015 میں انھوں نے اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

افغان بائیوز ڈاٹ انفو نامی ویب سائٹ کے مطابق ستانکزئی نے بھارت کی ایک ملٹری اکیڈمی سے ملٹری تربیت حاصل کی ہے۔ یہ اکیڈمی 70 کی دہائی میں افغان فوج کے اہلکاروں کو ملٹری تربیت دیتی تھی۔ عباس سویت جنگ میں سویت یونین کے فوجیوں کے خلاف ’حریت الانقلابی اسلامی‘ نامی جماعت کے پلیٹ فارم سے لڑے تھے جبکہ بعد میں وہ عبدالرسول سیاف کی بنائی گئی جماعت ’اتحاد اسلامی‘ میں شامل ہوئے اور ساؤتھ ویسٹرن صوبوں میں سوین یونین کی فوجوں کے ساتھ بطور کمانڈر لڑتے رہے۔

ستانکزئی کو زیادہ تر غیر ملکی وفود سے مذاکرات کے لیے چنا جاتا ہے کیونکہ طالبان رینک میں انہیں گفتگو کرنے اور انگریزی بولنے کی مہارت حاصل ہے۔ عباس ستانکزئی کو شروع میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے مذاکراتی ٹیم کا سربراہ بھی بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اسے تبدیل کرکے اس کی سربراہی عبدالحکیم حقانی کو دے دی گئی تھی۔

7۔ مولانا عبدالحق واسق، طالبان انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے سابق نائب وزیر اور مذاکراتی ٹیم کے رکن

عبد الحق واسق افغانستان کے صوبہ غزنی میں 1971 میں پیدا ہوئے ہیں اور وہ بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتانامو بے میں تقریباً 12 سال قید رہے، تاہم 2014 میں انہیں چار دیگر ساتھیوں سمیت جیل سے رہا کردیا گیا تھا اور اب وہ طالبان کے قطر دفتر میں مقیم ہیں۔

واسق کی رہائی کے بدلے طالبان کی قید میں موجود ایک امریکی سپاہی بوی برگداہل کو رہا کیا گیا تھا۔ امریکہ نے واسق کو  القاعدہ کے ساتھ مبینہ تعلقات کی بنا پر گرفتار کیا تھا۔

عبدالحق واسق اور گوانتامو سے رہا ہونے والے ان کے دیگر چار ساتھی امریکہ کے ساتھ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے۔

عبدالحق واسق کے حوالے سے وکی لیکس پر شائع امریکی وزارت دفاع کی کچھ دستاویزات میں بھی تفصیلات سامنے آئی تھیں، جن کے مطابق گوانتانامو جیل میں اس وقت قید عبد الحق واسق نے ابتدائی دینی تعلیم 1984 میں خیبر پاس کے قریب ایک مدرسے سے حاصل کی اور بعد میں کوئٹہ کے ایک مدرسے میں داخلہ لیا۔ دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا واسق غزنی واپس چلے گئے اور وہاں پر ایک مسجد میں امام کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔

8۔ خیراللہ سید ولی خیر خواہ، طالبان کے سابق وزیر داخلہ اور طالبان مذاکراتی ٹیم کے رکن

خیر اللہ سید ولی بھی عبدالحق واسق کے ساتھ گوانتانامو میں قید  رہے، جنہیں ایک امریکی فوجی کے بدلے 2014 میں رہا کیا گیا تھا۔ خیراللہ طالبان کے دور حکومت میں وزیر داخلہ تھے اور افغانستان کے اہم صوبے ہرات کے گورنر بھی رہے ہیں۔ خیر اللہ امریکہ کے ساتھ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے رکن تھے۔

خیر اللہ نے طالبان تحریک بننے کے کچھ عرصے بعد 1994 میں اس میں شمولیت اختیار کی تھی اور بعد میں طالبان حکومت میں ایک اہم رہنما کے طور پر ابھرے تھے۔ خیر اللہ صوبہ قندھار میں 1967میں پیدا ہوئے اور وہ حامد کرزئی کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔

اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق خیر اللہ نے امریکی تفتیشی افسران کو گرفتاری کے بعد بتایا تھا کہ وہ کرزئی کے دوست ہیں اور امریکہ کے افغانستان میں فوجی دستے داخل ہونے کے بعد ہتھیار ڈالنا اور اگلی حکومت میں جگہ بنانے کے خواہاں تھے۔ خیر اللہ بعد میں پاکستان میں پکڑے گئے تھا، جب وہ افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔

9۔ محمد فضل، طالبان کے سابق آرمی چیف

محمد فضل صوبہ اروزگان میں 1967 میں پیدا ہوئے۔ فضل بھی ان پانچ طالبان رہنماؤں میں شامل تھے، جنہیں 2014 میں ایک امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے گوانتاموبے سے رہا کیا گیا تھا۔ محمد فضل طالبان دور میں آرمی چیف رہے اور شمالی اتحاد اور امریکی فوجیوں کے خلاف پھرپور طریقے سے لڑتے رہے۔ محمد فضل رہائی کے بعد طالبان کے قطر دفتر میں رہے اور  انہیں امریکہ کے ساتھ مذاکراتی ٹیم کا رکن بنایا گیا۔

10۔ سہیل شاہین، طالبان سیاسی ترجمان برائے انگریزی میڈیا

سہیل شاہین پکتیا کے توتاخیل پشتون قبیلے میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اعلیٰ تعلیم اسلام آباد انٹرنیشنل یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔ سہیل شاہین طالبان کے سابق دور حکومت میں افغانستان کے پاکستان میں ڈپٹی سفیر تھے جبکہ ماضی میں وہ شعبہ صحافت سے وابستہ رہے۔ طالبان کے سابق دور حکومت میں سہیل شاہین افغانستان کے مشہور انگریزی روزنامے 'کابل ٹائمز' کے مدیر بھی رہے ہیں۔

انگریزی پر عبور کی وجہ سے انہیں طالبان کے قطر دفتر کے لیے انگریزی میڈیا کے لیے ترجمان مقرر کیا گیا۔ اس سے پہلے سہیل شاہین قطر دفتر کے تمام میڈیا کے لیے ترجمان مقرر تھے لیکن بعد میں ڈاکٹر محمد نعیم کو ترجمان جبکہ سہیل شاہین کو انگریزی میڈیا کے لیے ترجمان چنا گیا۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سہیل شاہین بعد میں پشاور کے شمشتو کیمپ میں بھی مقیم رہے اور یہاں پر ایک مقامی اخبار سے وابستہ ہوگئے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا