اجرک صرف ایک پہناوا نہیں بلکہ قدیم تہذیب سے جڑی سندھ کی شناخت ہے۔ اس کے تانے بانے موئن جودڑو کی ثقافت سے جا ملتے ہیں۔ اس ثقافتی ورثے کو مٹیاری کے شفیق احمد سومرو قدیم مخصوص قدرتی رنگوں، ٹھپے اور چھپائی کر کے بنا رہے ہیں۔
شکیل ابڑو، سندھی انڈیجینس ٹریڈیشنل کرافٹ سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اجرک کی اہمیت سمجھنے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ موئنجو دڑو سے برآمد ہونے والے مشہور بت ’کِنگ پریسٹ‘ نے بھی اجرک اوڑھ رکھی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ نیل کا پودا دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کاشت کیا جاتا تھا۔ نیل کے کام کے آثار موئنجو دڑو سے بھی ملے ہیں، یعنی نیلگوں رنگ سندھی تہذبی ورثہ ہے، جو اجرک کا مخصوص رنگ ہے۔
ہاتھ سے تیار شدہ اجرک کی تیاری میں محنت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کپڑے کو صرف چھپائی ہی کے لیے پانچ مراحل گزرنا پڑتا ہے۔ ڈھائی گز کی اجرک مکمل ہونے میں ایک ماہ سے زیادہ لگ جاتا ہے۔ اس کے چار مخصوص رنگ، یعنی کالا، سفید، سرخ اور نیلگوں یعنی انڈیگو ہیں، جو اجرک کی پہچان ہیں۔
ہاتھ سے بنی ہوئی مخصوص اجرک کی پہچان یہ ہے کہ وہ دو طرف سے چھاپی جاتی ہے، جبکہ سکرین پرنٹ کی اجرک صرف ایک طرف سے پرنٹ ہوتی ہے۔
ہم جب حیدرآباد شہر سے نزدیک مٹیاری کی اجرک فیکٹری میں داخل ہوئے تو احاطے میں دو ہی آوازیں گونج رہی تھیں، ایک کھٹ کھٹ، جو چھپائی کے ٹھپے لگانے کی مخصوص آواز تھی یا پیچھے سے آتی بکری کی ’میں میں‘۔ بڑے سے ہال میں چھ سے آٹھ کاریگر اپنی اپنی جگہ بیٹھے ہوئے عرق ریزی کے ساتھ کام میں جٹے ہوئے تھے۔
ہر کاریگر اپنے ماہر فن ہونے کا ثبوت دے رہا تھا۔ مجال ہے جو کوئی لکیر یا بلاک جگہ سے ہل جائے، یا رنگ باہر نکل آئے۔ نہ ہی کاریگروں کے رنگوں سے ہاتھ لتھڑے تھے۔ ہاں شفیق احمد سومرو کے ہاتھوں پر ضرور رنگ چڑھا ہوا تھا، کیونکہ قدرتی رنگوں کی تیاری انہی کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے سامنے ہی دیکھتے دیکھتے اجرک ایک مرحلے سے نکل کر دوسرے مرحلے میں داخل ہوگئی۔
کپڑے پر چھپائی سے پہلے کے مراحل
شفیق سومرو نے بتایا کہ چھپائی والی اجرک خالص سوتی کپڑے پر ہی تیار ہو سکتی ہے۔ رنگوں اور کپڑے میں کوئی ملاوٹ نہیں ہونا چاہیے، پھر رنگ کھل کر آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’وہی سوتی کپڑا جو لوگ پہنتے ہیں، وہ کپڑا جلد پھٹ جاتا ہے۔ لیکن ہم اجرک تیار کرتے ہوئے اسے سرسوں کے تیل سے مضبوطی دیتے ہیں۔ اسے سات سے آٹھ دنوں کے لیے سرسوں کے تیل میں بھگو دیتے ہیں، جس سے وہ بھاری ہو کر مضبوط ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجرک سالہاسال تک چلتی ہے، پھٹتی نہیں۔ اس طریقے سے بنائی گئی اجرک ’تیلی اجرک‘ کہلاتی ہے۔‘
اس کے بعد اس تیلی کپڑے کو رات بھر کے لیے صابن، سوڈے اور کھارے تیل ملا کر بھٹی میں پکاتے ہیں، پھر گھسی یعنی اونٹ کے گوبر میں بند کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اس سے کپڑے میں نرمی آ جاتی ہے اور کپڑے کا سارا کلف نکل جاتا ہے۔ اب اسے پانی سے دھو کر سکھا لیا جاتا ہے۔
اجرک کی تیاری میں موسم کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ بارش میں کام نہیں ہو سکتا کیوں کہ کئی مراحل پر کپڑے کو تیز دھوپ میں سکھانا ضروری ہے۔ اب کپڑا چھپائی کے لیے بالکل تیار ہے۔
اس کے بعد چھپائی کا پہلا مرحلہ ’چھر‘ کہلاتا ہے۔ اس مرحلے پر کالے رنگ سے مختلف ڈیزائنوں کی چھپائی کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسے سرخ رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ لال رنگ میں رنگتے ہوئے خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی دوسرا رنگ باقی ڈیزائن پر نہ چڑھے۔ اس کے لیے اونٹ کے گوبر سے اسے بلاک کر دیا جاتا ہے۔ اس سے ایک رنگ دوسرے رنگ پر نہیں چڑھتا۔
قدرتی رنگوں کو تیار کرنے والے ماہر
شفیق احمد سومرو گذشتہ 35 سال سے قدرتی رنگوں اور ہاتھ سے اجرک تیار کر رہے ہیں اور کئی نسلوں سے اس کام سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میرے والد محمد صدیق نے 40، 50 سال تک یہی کام کیا اور میرے دادا بھی یہی کام کرتے تھے، جبکہ میں خود آٹھ نو سال کی عمر سے یہاں آ رہا ہوں۔ تیسری جماعت میں پڑھتا تھا کہ والد صاحب سکول کے بعد اپنے ساتھ کام پر لگا لیتے تھے۔‘
شفیق نے بتایا کہ وہ 20 سال کی عمر میں سارا کام اپنی نگرانی میں کروانے لگے تھے۔ ’ابا کو رنگ تیار کرتے دیکھتا تھا، انہوں نے باقاعدہ قدرتی چیزوں سے رنگ تیار کرنے کا طریقہ لکھوا دیا تھا۔‘
رنگوں کی تیاری
45 سالہ شفیق سومرو نے بتایا: ’ہم اجرک کے مخصوص رنگ خود تیار کرتے ہیں۔ کالا رنگ تیار کرنے کے لیے پرانے لوہے کو پانی میں آٹھ دس دنوں کے لیے بھگو دیتے ہیں۔ زنگ اور پرانے لوہے سے جو رنگ نکلتا ہے، اس سے کالا رنگ تیار کیا جاتا ہے۔ لال رنگ ’منجید‘ پودے کی شاخوں سے تیار کیا جاتا ہے، ساتھ ہی گوند، ساگون، انار کے چھلکے اور مہندی کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ اجرک کے مخصوص نیلگوں رنگ یعنی انڈیگو کی تیاری کے لیے نیل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ نیل کو ہفتہ دس دن کے لیے بھگو دیا جاتا ہے۔ پہلے پہل اس میں سبزی مائل زرد رنگ نکلتا ہے، اس رنگ کو جتنی دھوپ لگتی جاتی ہے، وہ چمکیلا اور نیلا ہوتا جاتا ہے۔ یعنی اجرک کا مخصوص نیلا رنگ تیار ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاریگر خالد ڈینو لاکھو نے بتایا: ’کتھئی رنگ کی تیاری میں، چونا، الیجر اور گوند استعمال کرتے ہیں۔ پکا کرنے کے لیے کاسٹک بھی استعمال کر لیتے ہیں۔‘
اجرک کے چھپائی یا بلاک کے الگ الگ انداز اور نام
سومرو صاحب نے اجرک کے پرنٹ دکھاتے ہوئے کہا کہ ’اجرک کا ہر ڈیزائن الگ الگ ہوتا ہے، جیسے ’چکی،‘ ’جلیب‘ اور ’بادامی،‘ یہ سب چھپائی کے ڈیزائن ہیں۔ مخصوص نیلگوں رنگ کی اجرک کو ’کاشی اجرک‘ کہتے ہیں، جو عابدہ پروین بھی پہنتی ہیں۔ یہ سعیدہ پوری اجرک پر جلیب کی چھپائی کی جاتی ہے۔ موئن جودڑو سے نکلی ہوئی اجرک کے ڈیزائن کو ’ککر‘ کہتے ہیں۔ سرخ رنگ سے تیار اجرک کو ’کھارک‘ کہا جاتا ہے۔‘
خالڈ ڈینو لاکھو اجرک کے کام سے بچپن سے ہی منسلک ہیں۔ ان کے والد بھی یہ کام کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا: ’ہم یہاں سب سے پہلے مرحلے میں چادر کا پلو تیار کرتے ہیں جیسے ’پرلا‘ کہا جاتا ہے، پھر اندر کی بھرائی کی جاتی ہے۔ رنگوں میں کھتئی اور کالے رنگ کے مختلف چھاپے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ’چکی‘ ڈیزائن کا چھاپہ لگایا جاتا ہے۔ پھر ’وٹ‘ کی پتلی پٹی اور پھر ’ڈبری‘ انداز کی چھپائی کی جاتی ہے۔ پہلے اجرک کا بادڑ یا پلو تیار کرتے ہیں اور پھر بیچ کی بھرائی کی جاتی ہے۔ چونکہ رنگ میں گوند ہوتا ہے اس لیے جلد خشک ہو جاتا ہے، اس لیے چھاپے کو بار بار صاف کرنا ضروری ہے۔‘
لکڑی کے چھاپے یا بلاک کی تیاری
شکیل ابڑو نے کہا: ’اجرک کے پرانے طریقوں کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قدرتی رنگوں کی تیاری کے ساتھ ہاتھوں سے بلاک تیار کروایا جائے کیوں کہ ٹھپوں کو بھی مشین سے تیار کیا جا رہا ہے۔ ادارہ رواج ایسے کاریگروں کو تربیت دے رہا ہے جو ہاتھوں سے ٹھپوں کے نقش تیار کریں تاکہ اجرک کے مخصوص ٹھپے ہنرمند ہی تیار کریں اور لوگوں کو روزگار بھی مل سکے۔‘
کیمیکل رنگوں اور سکرین پرنٹ والی اجرک
کیمیکل سے تیار شدہ رنگائی کے رنگ جرمنی سے آتے ہیں۔ یہ سستے ہوتے ہیں، جبکہ دیسی رنگ تیار نہیں ملتے۔
شفیق سومرو کہتے ہیں: ’پانچ ہزار میں دیسی رنگ ایک کلو ملتا ہے جس سے صرف 30 گز کپڑا تیار ہوتا ہے، جبکہ اتنے پیسوں میں بازار میں ملنے والے کیمیائی رنگوں سے دو سو گز کپڑا تیار ہو جاتا ہے۔‘
سومرو نے مسکراتے ہوئے کہا: ’اب قدرتی رنگوں کو تیار کرنے کے دوران ہاتھ تو رنگیں گے ہی۔ دیکھ لیں سارے ہاتھ نیلگوں رنگ سے رنگیں ہو گئے ہیں، اور کئی کئی دن تک یہ رنگ چھٹتا نہیں۔ جبکہ کیمیائی رنگ صابن سے دھونے پر اتر جاتا ہے۔‘
شکیل ابڑو کا کہنا ہے کہ ’کیمیکل رنگوں کے بجائے قدرتی چیزوں سے تیار شدہ رنگوں کو فروغ دیا جائے۔ خاص کر نیلگوں رنگ کو پھر سے عام کیا جائے جو سندھی اجرک کی پہچان ہے۔ ماحول دوست کام کرنے کی جگہ کو عام کیا جائے۔ قدرتی اشیا سے تیار کردہ رنگ ماحول دوست بھی ہیں اور دیرپا بھی۔ ہم دوسرے رنگ، جیسے ہلدی، پیاز کا چھلکا، کتھا اور ہلدی سے رنگ تیار کر رہے ہیں۔‘
کیا یہ کام شفیق سومرو کی چوتھی نسل تک منتقل ہو سکے گا؟
سات بچوں کے والد شفیق احمد سومرو کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں، لیکن ان کی بیٹیاں بڑی ہیں اور بیٹا صرف سات سال کا۔
انہوں نے کہا: ’میں بیٹیوں میں یہ فن منتقل نہیں کر سکتا کیونکہ مٹیاری میں وہ شہر والا ماحول نہیں کہ لڑکیاں آگے آئیں۔ مقامی لوگ بیٹیوں کے کاموں کو اچھا نہیں سمجھتے۔ بیٹیوں کو شوق بھی نہیں۔ یہاں زیادہ تر لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکلتیں۔ پھر جب بچہ بڑا ہو گا تو وہ یہ کام کرتا بھی کہ نہیں، کیونکہ مہنگائی تو بہت ہے اور مارکیٹ بھی سخت ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہماری اجرک چھ ہزار کی بھی ہے اور 35 سو کی بھی۔ کپڑا تو سب ایک ہی استعمال کرتے ہیں، لیکن چھپائی کی محنت قیمت کا تعین کرتی ہے۔ ہماری اجرک پرنٹ والی اجرک سے مہنگی ہے اس لیے گاہک سستی کی طرف جاتے ہیں۔ لیکن جنہیں اچھی چیز کی پہچان ہے، وہ ہماری اجرک ہی پہنا پسند کریں گے۔ ہماری اجرک تو مٹیاری سے نکل کر بیرون ملک تک جاتی ہے کیونکہ یہ سندھ اور پاکستان کی پہچان ہے۔‘