صحافی کہاں جائیں؟

مالکان مجبور کر کے صحافیوں سے خبر لیتے ہیں اور حکومت ان مجبوروں کے خلاف ایکشن لیتی ہے۔ صحافی دونوں کے بیچ پسا جا رہا ہے۔

اگست 2020 میں کوئٹہ میں صحافیوں کا احتجاج (اے ایف پی)

جرمن پرنٹر جون پیٹر زینگر نے 1733 میں نیو یارک شہر میں ایک ہفت روزہ اخبار شروع کیا۔ مگر ایک ہی برس بعد گورنر نیور یارک کے خلاف توہین آمیز خبر کی اشاعت کے لیے زینگر کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ بعد میں الزام غلط ثابت ہونے پر رہا کر دیا گیا، لیکن اس کے بعد سے زینگر کو صحافت کی آزادی کی علامت کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں صحافت کی ابتدا تو برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی لیکن آزادی اظہار رائے کے لیے آئین کا آرٹیکل 19 کہتا ہے کہ ’اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیش نظر یا توہین عدالت، کسی جرم کے ارتکاب، یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق ہو گا اور پریس کی آزادی ہو گی۔‘

اس کے علاوہ ’قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں اور ضوابط کے تابع ہر شہری کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہو گا۔‘

جیسے جیسے میڈیا نے ترقی کی اور پرنٹ میڈیا کی جگہ الیکٹرانک میڈیا لینے لگا ایسے ہی میڈیا کے حوالے سے قوانین بھی متعارف کروائے گئے۔ پیمرا اتھارٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی شروعات 21ویں صدی کے آغاز سے ہے، سال 2000 اور 2001 میں الیکٹرانک میڈیا یا نیوز ٹیلی وی چینلوں کا سلسلہ شروع ہوا اور سال 2002 پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا آرڈیننس کے ذریعے قیام عمل میں لایا گیا۔

آرڈیننس کے چار بنیادی نکات تھے، جن میں سے دوسرے نکتے میں تحریر کیا گیا ہے کہ ’پاکستان کے عوام کو، میڈیا میں خبروں، حالات حاضرہ، مذہبی معلومات، آرٹ، ثقافت، سائنس و ٹیکنالوجی، معاشی ترقی، موسیقی، کھیل، ڈرامے سے متعلق سماجی شعبے اور عوام اور قومی مفاد کے دیگر موضوعات کے انتخاب کے لیے وسیع میدان فراہم کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں اس وقت 30 سے زائد میڈیا چینل جلوہ گر ہیں جبکہ ادارہ شماریات کے مطابق 707 اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں۔ ان ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات میں ہزاروں صحافی کام کرتے ہیں۔ فریڈم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو ان ہزاروں صحافیوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔ ان کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق سال 2019 اور 2020 میں صحافیوں کو قتل، اقدام قتل، زخمی کرنے، دھمکیاں، اغوا، گھروں پر حملے اور صحافیوں کے خلاف قانونی کیسوں کے 92 واقعات پیش آئے ان میں سے 69 فیصد الیکٹرانک میڈیا اور 28 فیصد اخبارات، ریڈیو اور ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں کے خلاف ہوئے۔

جب اتنی بڑی میڈیا انڈسٹری اور صحافیوں کی تعداد پر آپ کی نظر پڑتی ہو گی تو یقیناً آپ سوچتے ہوں گے کہ اربوں روپے کی انڈسٹری اور صحافیوں کی تنخواہیں اور انشورنس بھی کروڑوں میں ہو گی۔ اس بات کا جواب سنیے ان صحافیوں سے جنھوں نے تقریباً اپنی آدھی زندگی صحافت کے نام کی ہے۔

میڈیا ہاؤسز دو بڑے حصوں میں کام کرتے ہیں: ایک نیوز اور دوسرا پروگرامنگ۔ نیوز میں نیوز رپورٹر، ایڈیٹر اور بیوروچیف ہوتے ہیں جبکہ پروگرامنگ میں ریسرچر، کوارڈینیٹر، پروڈیوسر اور  اینکر ٹیم کا حصہ ہوتے ہیں۔

نیوز میں کام کرنے والے رپورٹروں اور ایڈیٹروں کی تنخواہ 25 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک چل رہی ہے، جبکہ بیورو چیف بھی ایک لاکھ سے ڈھائی لاکھ تک تنخواہ لیتے ہیں۔

پروگرامنگ پر آ جائیں تو کوارڈینٹر اور پروڈیوسرز کی تنخواہ 50 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک ہوتی ہے، جبکہ پروگرام اینکر عام طور پر پانچ لاکھ سے 35 لاکھ تک تنخواہ لے رہے ہوتے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً 80 فیصد صحافیوں کی تنخواہ ایک تولہ سونے کی قیمت سے بھی کم ہے جبکہ ان کی تعلیم ماسٹرز یا ایم فل ہوتی ہے۔

ایک صحافی کا کہنا ہے کہ کرونا کا شکار ہو کر بھی ہمیں چینل سے صرف Get well soon کا میسج آتا ہے۔ انشورنس تو دور کی بات ہے۔ یعنی یہ سمجھیے کہ پاکستانی میڈیا ہاؤسز کی ہر چیز کی انشورنس ہوتی ہے، سوائے میڈیا ورکز یا صحافیوں کے۔ کہا جاتا ہے کہ چیزوں کی قیمت اور انسان کی قدر ہوتی ہے لیکن جو بے قدری اب کی بار میڈیا ورکز یا صحافیوں کی ہو رہی ہے شاید ایسا پہلے کبھی سوچا ہی نہ گیا ہو۔

بہت سے چینل عام انتخابات سے پہلے شروع ہوتے ہیں، پرکشش تنخواہوں پر صحافیوں کو نوکری کے لیے بلاتے ہیں اور پھر چند ماہ یعنی الیکشن کے اختتام کے ساتھ ہی ان کا اختتام ہو جاتا ہے۔ صحافیوں کی تنخواہوں میں کٹ لگ جاتے ہیں، کچھ کی تنخواہیں ہی روک لی جاتی ہیں،تو کچھ کو نکال دیا جاتا ہے؟ کچھ چینل کا حال تو فیکٹری والا ہے تنخواہیں لائن میں لگ کر دی جاتی ہیں تاکہ ٹیکس سے بچا جائے۔ دوسری بات کے میڈیا کے اداروں میں تنخواہیں سالانہ بنیاد پر نہیں سالہا سال کی بنیاد پر اگر آپ کی قسمت اچھی ہو تو بڑھتی ہیں ورنہ چند ایک افراد ہی منظور نظر ہوتے ہیں اور وہی تنخواہ مراعات سے مستفید ہوتے ہیں۔

لیکن اب تو حالات اتنے ابتر ہو چکے ہیں کہ صحافیوں کو کئی کئی ماہ تنخواہیں نہیں ملتیں۔ دو دن قبل ایک انگریزی چینل نے ملازمین کو کام کرنے سے روک دیا ہے اور ان کی 15 ستمبر تک ادائیگی کر کے چھٹی دے دی، ساتھ ہی لکھا کہ آپ کو دوبارہ بلایا جائے گا۔

کچھ صحافی فاقوں پر مجبور تو کچھ حالات کے اس خونی چنگل سے بچ نہ پائے اور جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جن چینلوں کے مالکان تنخواہ دینے سے قاصر ہیں وہ چینل کیوں نہیں بند کر دیتے؟

پاکستان میں صحافتی تنظیوں کی بھی بہتات ہے،  اور یہ سب صحافیوں کی خود کو ترجمان بھی سمجھتی ہیں۔ آج کل بھی یہ تنظیمیں وزیر اطلاعات کی جانب سے نئے قانون پی ڈی ایم اے ( پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے خلاف نہ صرف متحرک ہیں بلکہ اس کے خلاف گذشتہ دو روز پارلیمنٹ کے باہر دھرنا بھی دیا گیا، جبکہ اپوزیشن بھی صحافیوں کا ساتھ دے رہی ہے

تاحال پی ڈی ایم اے کے مسودے کو قانونی شکل نہیں مل سکی، لیکن بہرطور یہ بھی لکھنا ضروری ہے کہ تمام صحافی اس کے خلاف نظر نہیں آتے یعنی اس نئے مسودے نے صحافیوں کو بھی دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ دنوں میں اس قانون کی کتنی شقیں پاس ہوتی ہیں اور جیت کس کی ہوتی ہے۔

وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ قانون فیک نیوز کے خلاف ہے اور عامل صحافیوں کی بہتری کے لیے بنایا گیا ہے۔

عام صحافیوں کی کیا پریشانی ہے اس سے نہ تو حکومت کو کوئی غرض ہے اور نہ ہی میڈیا مالکان کو، سب اپنا اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ مالکان مجبور کر کے خبر لیتے ہیں اور حکومت ان مجبوروں کے خلاف ایکشن لیتی ہے۔ صحافی جائیں تو جائیں کہاں؟

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ