عالمی شدت پسند تنظیم اسلامک سٹیٹ یا نام نہاد داعش کے ذیلی شاخ اسلامک سٹیٹ آف خراسان (آئی ایس کے پی) سے وابستہ ’وائس آف ہند ‘ یا ’صوت الہند ‘ نامی میگزین کے مطابق گذشتہ ماہ کابل کے ہوائی اڈے پر خود کش حملہ کرنے والا حملہ آور پانچ سال قبل بھارت میں گرفتار ہوا تھا۔
میگزین کے ستمبر کے شمارے میں لکھا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ کابل ائیر پورٹ پر خود کش حملے میں ملوث خود کش حملہ آور پانچ سال پہلے بھارت میں گرفتار ہوا تھا اور قید کے بعد اس کو افغانستان ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔
کابل ایئر پورٹ پر 26 اگست کو امریکی فوجیوں اور افغانستان سے انخلا کے لیے ایئر پورٹ سے باہر انتظار میں کھڑے لوگوں کو خود کش حملہ آور نے نشانہ بنایا تھا جس میں13 امریکی فوجیوں سمیت کم از کم 170 افراد ہلاک جبکہ 150 کے قریب لوگ زخمی ہوئے تھے۔ 15 اگست کو جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں ملک سے نکلنے کی کوشش میں تھے۔
یہ لوگ زیادہ تر امریکی اور اتحادی فوجیوں کو کسی نہ کسی طریقے سے خدمات فراہم کر رہے تھے اور امریکہ نے ان لوگوں کی انخلا کے لیے انتظامات کیے تھے اور اسی مقصد کے لیے کابل ایئرپورٹ کا مکمل کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ امریکی حکام کے مطابق 31 اگست تک امریکہ نے افغانستان سے ایک لاکھ سے اوپر لوگوں کو نکالا ہے۔
داعش کی 20 صفحات پر مشتمل پروپیگنڈہ میگزین کے نئے شمارے میں لکھا گیا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ہزاروں افغان بیورو کریٹ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے اور اسی دوران عبد الرحمان لوگری نامی خود کش حملہ آور نے 13 امریکی فوجیوں اور ایک درجن سے زائد طالبان جنگجو سمیت 250 کے قریب لوگوں کو ہلاک کیا۔
میگزین میں لکھا گیا ہے کہ ’کابل ایئر پورٹ حملے میں ملوث خود کش حملہ آور عبدالرحمان پانچ سال پہلے دہلی میں اس وقت پکڑا گیا تھا جب وہ وہاں پر کشمیر میں مظالم کا بدلہ لینے کے لیے ہندو عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ لیکن اللہ نے کچھ اور فیصلہ کیا تھا ۔ ان کو گرفتاری کے بعد قید میں رکھا گیا تھا اور پھر افغانستان ڈی پورٹ کردیا گیا جہاں پر ایئرپورٹ پر خود کش حملہ کیا۔‘
وائس آف ہند میگزین کے بارے میں مختلف رپورٹس میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ میگزین بھارت سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق رواں سال جولائی کے مہینے میں اس میگزین سے منسلک کچھ لوگوں کو بھارت کی سکیورٹی ایجنسیز نے گرفتار بھی کیا تھا۔‘
انٹر نیشنل سنٹر فار پولیٹیکل وائلنس اینڈ ٹیررزم ری سرچ میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ میگزین داعش کا آفیشل پرو پینگنڈہ میگزین ہے جس کو نئی ریکروٹمنٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا فوکس زیادہ تر بھارت پر ہے بر صغیر میں اس کو بطور پروپیگنڈہ استعمال کرتا ہے۔
مقالے کے مطابق بھارت کے کرنالا اور کرناٹیکا میں داعش کے جنگجو موجود ہے جو تقریبا ً 200 افراد پر مشتمل ہے۔ اسی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ داعش بھارت سمیت برصغیر میں کارروائیوں کو غزہ ہند سے تشبیہ دیتے ہے جس کے لیے وہ بھرتیاں کرتے ہیں۔
بھارت کے اخبار دی ہندو کے ایک رپورٹ کے مطابق ستمبر 2020 میں بھارت کے پولیس نے وائس آف ہند کے بانی رکن عبداللہ باسط (خطاب بھائی) کو بھارتی شہر حیدر آباد سے گرفتار کیا تھا جن کے موبائل سے داعش کی آن لائن میگزین ’وائس آف ہند‘ کی کاپیاں بھی برامد ہوئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سویڈن میں موجود شد ت پسند تنظیموں پر تحقیق کرنے والے آزاد محقق عبدالسید نے انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا کہ ’مجھے یہ بہت عجیب لگا کہ داعش نے اپنے کسی خود کش حملہ آور کے حوالے سے ایسے تفصیلات پہلے شئیر کی ہوں کیونکہ جہاں تک میں نے ان کی مواد پڑھا ہے تو وہ اس قسم کے تفصیلات شئیر نہیں کرتے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ کابل ائیر پورٹ حملے میں ملوث خود کش حملہ آور کے حوالے سے حتی کے داعش کے ’النیبا‘ نامی میگزین جو اس تنظیم کا فلیگ شپ میگزین ہے، میں بھی اتنی تفصیل نہیں ہے لیکن اس میگزین میں انھوں نے تفصیلات دی ہیں۔‘
عبدالسید نے بتایا کہ ’داعش کے فلیگ شپ میگزین میں صرف اتنا لکھا گیا ہے کہ کابل ائیر پورٹ حملے میں ملوث خود کش حملہ آور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد جیلوں سے رہا کیے گئے افراد میں شامل تھے۔‘
عبدالسید سے جب پوچھا گیا کہ ان تفصیلات کو شئیر کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے، اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’میرے خیال میں اس سے آئی ایس کے پی یہ بتانا چاہتی ہے کہ ان کی تنطیم بھارت میں موجود ہے تاکہ لوگوں کو متاثر کر سکے۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ اگر اس حملہ آور کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ افغانستان جیل کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد رہا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ بھارت نے اس کو سابق افغان حکومت کو حوالے کیا تھا، اس کے جواب میں عبدالسید نے بتایا کہ ’قوی امکان ہے کہ بھارت حکومت نے اس کو سابق افغان حکومت کے حوالے کیا تھا کیونکہ ممالک کے مابین قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے ہوتے رہے ہیں۔‘