پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف کا کہنا ہے کہ بھارت کے اندر داعش کے تربیتی کیمپس موجود ہیں اور بھارتی وزیراعظم آفس میں ایک سیل کام کر رہا ہے جس کا مقصد پاکستان چین اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانا ہے۔
قومتی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے یہ بات اسلام آباد میں انٹرنیشنل میڈیا سے منسلک صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہی۔
اسلام آباد میں ہونے والی اس بریفنگ کے دوران صحافیوں میں ڈوزیئر بھی تقسیم کیے گئے جس میں داعش کے پانچ مبینہ کیمپوں کے جی پی ایس کوآرڈینٹس دیے گئے ہیں۔
ان میں سے تین کیمپ مبینہ طور پر راجستھان، اتراکھنڈ اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے گلمرگ میں موجود ہیں۔ ڈوزیئر کے مطابق ’بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیز داعش جنگجوؤں کی تربیت میں شامل ہیں اور حکومت پاکستان کے پاس اس کے شواہد موجود ہیں۔‘
ڈوزیئر کے مطابق ’بھارت ان جنگجوؤں کو کشمیر کی آزادی کی مہم کی صف میں شامل کر کے اس جدوجہد کو دہشت گردی کے طور پر دکھانا چاہتا ہے اور اس کے ذریعے کشمیر میں اپنے جنگی جرائم کی صفائی دینا چاہتا ہے۔‘
بریفنگ کے دوران ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ بھارت افغانستان کی صورتحال کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
’بھارتی بیانیے میں ایک واضح رجحان نظر آ رہا ہے کہ جب بھی وہ کشمیر میں پھنستے ہیں یا عالمی نظریں ان پر ہوتی ہیں تو دہشت گردی کے حوالے سے بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔۔۔کیونکہ وہ کشمیر کی آزادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بات ہٹا کر دہشت گردی کو موضوع بنانا چاہتا ہے اور بدقسمتی سے دنیا ان کی بات کا یقین کر کے اصل مسئلے سے نظر ہٹا لیتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر دنیا نے دوبارہ (داعش کے مبینہ تربیتی کیمپوں) کے معاملے سے نظر ہٹائی تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سے بھارت کو مزید شے ملے گی اور وہ اس ’بوگی‘ (پراکسی) کو بنائے گا اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرے گا۔‘
’ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ بھارت نے کشمیر میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں مگر تصاویر میں شواہد کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے ملتے جلتے ہیں۔ اس معاملے پر بین الاقوامی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ کم از کم نگران اداروں کو کشمیر جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ خود وہاں جا کر دیکھیں۔۔۔۔ اگر ایسا ہی ہے تو بین الاقوامی قوانین کا اطلاق کیا جانا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان میں بھارتی ’منصوبوں‘ کے حوالے سے معید یوسف کا کہنا تھا کہ ’بھارت کے افغانستان میں منصوبے پاکستان کو ہدف بنانے کے لیے تھے کیوںکہ زیادہ تر پاکستانی سرحد سے متصل علاقوں میں تھے۔‘
افغانستان کی صورتحال
بھارت کے علاوہ معید یوسف نے افغانستان کے بارے میں پاکستانی بیانیے پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان جنگ کا ممکنہ طور پر واحد اتحادی تھا جس کی سرزمین پر بمباری کی گئی۔
قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا تھا کہ افغانستان دوراہے پر کھڑا ہے۔ افغانستان کو جیسے 90 کی دہائی میں تنہا چھوڑا گیا اگر اب بھی ایسا کیا گیا تو سکیورٹی خلا پیدا ہو جائے گا۔ افغانستان میں داعش، القاعدہ اور پاکستانی طالبان موجود ہیں۔ یہ گروہ پاکستان اور مغرب کے دشمن ہیں۔
نئی افغان حکومت کی امداد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے ساتھ دنیا کو ’انگیج‘ کرنا ہو گا۔ دوحہ مذاکرات اور اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے بھی مختلف ممالک نے طالبان کے ساتھ انگیج کیا تھا۔‘
طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ’یہ مغربی دنیا ہے جسے طالبان کو تسلیم کرنا ہے، کوئی بھی ہماری طرف نہیں دیکھ رہا۔ جو ممالک وہاں 20 سال سے موجود تھے انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں اس (طالبان حکومت) سے بات کرنا ہے یا نہیں۔‘
معید یوسف سے پوچھا گیا کہ وہ نئی افغان حکومت کو ’انکلوسو‘ سمجھتے ہیں یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے فرق نہیں پڑتا کہ میں کیا سوچتا ہوں۔۔۔۔اگر کسی کو افغانستان حکومت سے کوئی سوال ہیں تو وہ ان سے براہ راست بات کر سکتا ہے۔‘
جب سیکریٹری بلنکن کے حالیہ بیان جس میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینے کا کہا تھا کے بارے میں پوچھا گیا تو معید یوسف نے کہا کہ ’ایک فطری جائزے کی ضرورت ہے اور اس جائزے کا حصول یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان اور امریکہ کا ایک وسیع تعلق ہونا چاہیے جس میں تمام عوامل شامل ہوں اور پاکستان کو کسی تیسرے ملک (بھارت، افغانستان یا چین وغیرہ) کے تناظر سے نہ دیکھا جائے۔‘
اب پاکستان میں حملے کون کر رہا ہے؟ اس بارے میں معید یوسف کا کہنا تھا کہ ’یہ حملے اس لیے ہو رہے ہیں کہ صورتحال ابھی غیر یقینی ہے۔ آج پاکستان میں سات فوجی مارے گئے کیوںکہ دہشت گرد موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔۔۔۔ جن دہشت گردوں کو پتہ ہے کہ کچھ دنوں کے بعد ان کے پاس یہ موقع نہیں رہے گا وہ اس وقت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘