بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں خواتین کے لیے واحد مخصوص تھانہ گذشتہ چار ماہ سے کام کر رہا ہے جہاں تمام عملہ خواتین پر مشتمل ہے، جو خواتین کی رہنمائی میں مصروف ہے۔
تھانے کی ایس ایچ او زرغونہ منظور ترین کہتی ہیں کہ اس تھانے میں آنے کے بعد خواتین خود کو محفوظ سمجھتی ہیں اور اپنے مسائل بیان کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتی ہیں۔
زرغونہ کے مطابق پہلے شہر کے وسط میں قائم سٹی پولیس تھانے میں ویمن رپورٹنگ سینٹر کام کر رہا تھا، تاہم اس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ خواتین کے لیے الگ تھانے کا قیام عمل میں لایا جائے۔
وہ بتاتی ہیں کہ تھانہ چار ماہ قبل قیام میں آیا اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قیام کے ساتھ ہی خواتین مسائل لے کر آنا شروع ہوگئیں۔
تھانہ کوئٹہ میں ریڈ زون کے قریب اور گورنر ہاؤس کے پیچھے واقع ہے۔ زرغونہ بتاتی ہیں اگر کبھی خواتین کو اس کا علم نہ ہو تو متاثرہ خواتین، جن کو گھر میں یا کہیں اور مسائل کا سامنا ہوتا ہے، انہیں رکشے والے یہاں اتار دیتے ہیں۔
زرغونہ کے مطابق تھانے میں اکثر ایسی خواتین شکایت لے کر آتی ہیں جنہیں گھریلو تشدد کا سامنا ہوتا ہے یا وہ خود یا ان کے بچے زیادتی کا شکار ہوئے ہوں۔
فی الحال یہ صوبے میں خواتین کا واحد تھانہ ہے اور زرغونہ کہتی ہیں صوبے کے وسیع رقبے کے لحاظ سے یہ ناکافی ہے، اسی لیے حکومت تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں بھی ایسے خواتین کے تھانے قائم کرنےکی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ان کے مطابق ان کے پاس کوئٹہ کے علاوہ قلات اور ژوب سے بھی مسائل لے کر خواتین آرہی ہیں، جس پتہ چلتا ہے کہ خواتین کا علیحدہ تھانہ کتنا ضروری تھا۔
زرغونہ نے کہا: ’اگر کوئی خاتون قلات سے آتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بلوچ اکثریتی علاقے سے آرہی ہے اور دوسری جانب اگر کوئی ژوب سے آتی ہے تو اس کا مطلب یہ وہ پشتون بیلٹ سے آرہی ہے۔ مطلب یہ کہ اس تھانے میں پورے صوبے کے خواتین آرہی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسائل کے حل کے ساتھ تھانے میں اہلکار خواتین کو دیگر سرٹیفیکیٹ اور ڈرائیونگ کے لیے لرنر لائسنسز دینے کی سہولت بھی فراہم کردی گئی ہے۔
’میری کوشش ہے کہ جن خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس کے لیے ٹیسٹ دینا پڑتا ہے، وہ بھی یہاں لیا جائے۔ تاکہ ان کو مکمل سہولت مل سکے۔‘
خواتین کے اس تھانےمیں پورے صوبے کا چائلڈ پروٹیکشن یونٹ بھی قائم ہے، جس کی ان چارج بھی زرغونہ ترین ہیں۔
زرغونہ نے بتایا کہ ہمارے تھانے میں کم عمر بچے بھی لائے جاتے ہیں، جنہیں امانتاً اس پروٹیکشن یونٹ میں رکھا جاتا ہے۔
شکایت دہندہ کے ساتھ ساتھ جرائم میں ملوث خواتین ملزمان کو بھی یہیں لایا جاتا ہے۔
کیا یہ تھانہ شہر سے الگ تھلگ جگہ پر ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے نزدیک یہ شہر کی اہم ترین شاہراہ پر واقع ہے۔
انہوں نے تھانے کے حدود اربعہ کے حوالے سے بتایا کہ یہ شہر کے ریڈ زون کے قریب اور گورنر ہاؤس کے پیچھے قائم ہے۔ اس کے سامنے جو شاہراہ ہے وہ شہر کے تمام سڑکوں سے ملتی ہے۔
زرغونہ بتاتی ہیں اگر خواتین کی شکایت پر رپورٹ درج کرتے ہیں تو آخری فیصلہ آنے تک ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ اگر کسی خاتون کا مرد کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو ہم متعلقہ تھانے کے عملے کو بلا کر مسئلہ حل کرواتے ہیں۔
زرغونہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر نے پولیس کے پیشے کو دل و جان سے اپنایا اور خدمت کی جن کو دیکھ کر انہوں نے بھی اس کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ فیصلہ مشکل تھا کیونکہ کسی خاتون کا پولیس میں شامل ہونا اور وہ بھی ایک پشتون خاندان سے تعلق رکھنے ہوئے، اسے معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن انہوں نے فورس جوائن کی اور ان کے آنے سے اور خواتین کے لیے راستے کھلے۔
انہوں نے بتایا کہ اس تھانے میں تین خواتین ایسی ہیں جو پبلک سروس کمیشن سےامتحان پاس کرکے شامل ہوئی ہیں۔