وزیراعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے پاکستان کو امریکہ کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں اتحادی ہونے کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا لیکن اس کے باوجود تعریف کی بجائے افغانستان کی صورت حال پر پاکستان کو مغرب سے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے دیر رات جمعے کو اپنے ورچوئل خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں جنگ کا سب سے زیادہ نقصان افغانستان کے بعد پاکستان کو ہوا ہے، جہاں 80 ہزار پاکستانی مارے گئے اور معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی کی دہائی سوویت قبضے کے بعد پاکستان کو روس کے خلاف استعمال کیا گیا۔ پاکستان اور امریکہ نے ’مجاہدین‘ کو لڑںے کی تربیت دی اور انہی ’مجاہدین‘ میں سے ایک گروہ القاعدہ بھی تھا۔
ایک نیوز رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا اس دور کے امریکی صور رونلڈ ریگن نے ’مجاہدین‘ کو وائٹ ہاؤس میں دعوت بھی دی اور ان کا موازنہ امریکہ کے بانیوں کے ساتھ بھی کیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ سوویت فوج کے جانے پعد امریکہ نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا جہاں اب 50 لاکھ افغان پناہ گزین بھی آگئے تھے۔ ’ہمارے ہاں مذہبی فرقہ پرستی پھیلانے والے عسکری گروپس آگئے جن کا پہلے کوئی وجود نہ تھا۔‘
انہوں نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے اور اس کے بعد پاکستان میں کیے جانے والے 480 ڈرون حملوں سے پاکستان کر اندر بسنے والے افغان پشتون اور بھی مایوس ہوئے اور یوں طالبان کے ہمدردوں کے کارروائیاں پاکستان میں شروع ہوگئیِں۔ ’پہلی بار پاکستان میں عسکریت پسند طالبان سامنے آئے انہوں نے بھی پاکستانی حکومت پر حملے کیے۔‘
انہوں نے کہا کہ 2004 اور 2014 کے درمیان 50 مختلف عسکری گروپ پاکستان کی ریاست پر حملہ آور تھے، اور آئے دن ملک میں بم دھمکے ہوتے رہے۔
وزیراعظم عمران خان کے مطابق: ’پاکستان نے افغانستان کے خلاف امریکی اتحادی بننے کی بھاری قیمت چکائی ہے لیکن اس کے باوجود تعریف کے بجائے پاکستان کو الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
افغانستان میں موجودہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر دنیا اگر آج دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیوں طالبان واپس اقتدار میں آ گئے ہیں تو اسے پر تفیصلی جائزہ کرنا چاہیے کہ کیوں تین لاکھ افغانوں کی تربیت یافتہ فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ ’جس لمحے اس کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے گا تو دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ طالبان اقتدار میں واپس کیوں آئے ہیں اور یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ افغانستان سے منہ نہ موڑا جائے کیونہ وہاں شدید انسانی بحران کا خدشہ ہے۔ بحران سے دوچار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا، جس سے ہمسایہ مملک کو ہی خطرہ ہوگا۔
وزیر اعظم نے کہا: ’آگے جانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم افغان عوام کی خاطر لازمی طور پر موجودہ حکومت کو مستحکم کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ طالبان نے انسانی حقوق کے احترام، مخلوط حکومت اور اپنی سرزمین کو دشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے کے وعدے کیے ہیں تو اگر عالمی برادری ان کی حوصلہ افزائی اور ان کے ساتھ بات چیت کرتی ہے تو یہ سب کے لیے کامیابی ہو گی۔‘
’اگر دنیا اس سمت میں آگے بڑھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو امریکی اتحاد کی افغانستان میں 20 سال کے دوران کی جانے والی کوششیں ضائع نہیں ہوں گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغانستان کے معاملے میں مزید وقت ضائع نہیں کر سکتے اور ہمیں اس حوالے سے فوری اقدامات لینے ہوں گے۔‘
بھارت اور اسلامو فوبیا
وزیر اعظم بے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے مظالم پر بھی بات کی۔
انہوں نے کہا: ’بھارت میں ہندوتوا کی سوچ والے انتہا پسند بھارت کے مسلمانوں کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ہندو انتہا پسند بھارت میں مساجد میں حملے کر رہے ہیں۔‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بھارت کی قابض افواج نے کشمیر میں 13 ہزار سے زائد کشمیریوں کو اغوا کیا اور سینکڑوں کشمیریوں کو ماورائے عدالت طریقے سے قتل کیا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کشمیر میں اجتماعی سزاؤں کے اصول پر کام کر رہی ہیں۔ ‘
ان کے مطابق ’بھارتی انتظامیہ کشمیر کو مسلم اکثریتی سے مسلم اقلیتی علاقہ بنانا چاہتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بھارت نے کشمیری رہنما سید علی گیلانی کو اپنی وصیت کے مطابق اور اسلامی عقائد کے مطابق تدفین سے روکا اور ان کے خاندان کو اس بات کا حق نہیں دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے دیگر ہمسائیوں کی طرح بھارت کے ساتھ بھی امن کا خواہش مند ہے، لیکن جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا دارومدار جموں و کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونے میں ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مغرب میں مسلمانوں کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس حوالے سے ایک عالمی حکمت عملی کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔‘
اپنی تقریر میں عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کو کووڈ وبا کے ساتھ ساتھ معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے درپیش خطرات سے تین طرفہ چیلنج کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی بحران سے بری طرح سے متاثرہ 10 ممالک میں شامل ہے اور بلین ٹری سونامی اور دیگر اقدمات سے موسمیاتی بحران کی بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے مطابق پاکستان نے سمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے کرونا کی وبا کو قابو میں رکھتے ہوئے اپنی معیشت کو بحال رکھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بدعنوان اشرافیہ کی کرپشن کی وجہ سے غریب اور امیر ممالک کے درمیان فرق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کے باعث امیر ممالک کی جانب غریب ممالک سے لوگوں کی نقل مکانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
ان کے مطابق غریب ممالک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس کرنے میں امیر ممالک دلچسپی نہیں رکھتے۔ ’میں مستقبل میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ امیر ممالک معاشی مہاجرین کو روکنے کے لیے دیواریں تعمیر کریں گے۔‘